01/04/2024
*لائف انشورنس کیا ہے؟*
اور یہ دوسرے تمام مالیاتی معاملات سے مختلف کیسے ہے؟
*تحریر: سید عدنان حیدر کاظمی*
*ایریا مینیجر*
*اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان*
اسلام آباد زون
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
انشورنس لفظ شورٹی سے نکلا ہے یعنی یقین دہانی۔
زندگی کو جاری رکھنے کے لیے مختلف اسباب کی ضرورت ہوتی ہے جسے ایک خاندان کا سربراہ کسی پیشے سے منسلک ہوکر پورا کرتا ہے۔
لائف انشورنس بنیادی طور پر زندگی کو لاحق رسک اور اس کے بدلے ہونے والے معاشی نقصان کو محفوظ کرنے کا نام ہے۔
ایک فرد کسی دوسرے فرد یا ادارہ سے کسی معین مدت کا معاہدہ کرے کہ قبل ازوقت ناگہانی موت کی صورت وہ طے شدہ رقم اس کے ورثاء کو اداکرے گا۔اسے بیمہ کہتے ہیں اور بیمہ شدہ فرد معاہدے کے مطابق اس بیمہ شدہ رقم کا پریمئیم ہرسال ادا کرتا رہے گا۔یہ بیمہ یعنی انشورنس اس مالی رقم کی یقین دہانی ہے جو اس بیمہ شدہ کے خاندان کو زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہوگی۔
یہ انشورنس ہے۔
اسے لائف انشورنس کیسے کہا جائے گا؟
ہر کمانے والے فرد کی کمائی پر اس کا خاندان انحصار کرتا ہے۔اس فرد کی کمائی کو خطرہ لاحق ہے وہ خطرہ ہے کمانے والے فرد کی جلد یا قبل از وفات ۔جس کے بعد اس کا خاندان اس آمدن سے محروم ہوجاتا ہے جو وہ مرجانے والا کما رہا ہوتا ہے۔
پیچھے رہ جانے والے خاندان نے زندہ رہنا ہوتا ہے۔اور بچوں کی تعلیم اور گھر کے باقی اخراجات اسی طرح موجود ہوتے ہیں۔اس لیے اسے لائف انشورنس کہیں گے۔
لائف انشورنس میں اس کمانے والے فرد کی زندگی پہ انشورنس دے دی جاتی ہے کہ اگر یہ فرد وفات پاگیا تو معاہدے کے مطابق رقم اس کے خاندان کو دی جائے گی۔
اب انشورنس اتنی ہی ہونی چاہیے جو آمدن کا متبادل ہوسکے۔لہذا انشورنس ایڈوائزرز اس مرحلے پر اپنا کردار بخوبی سرانجام دیں اور ضرورت کے مطابق انشورنس پالیسی گائیڈ کریں۔
ہاورڈ سکول آف اکنامکس نے اس بابت اہم فارمولا HLI بیان کیا یے۔
جس میں ایک فرد کی زندگی کے 20 سالوں کو اہم معاشی سال قرار دیا گیا ہے۔جس میں ہی فرد کے بڑے بڑے معاشی فیصلے ہونا ہوتے ہیں۔بچوں کی تعلیم ان کی شادیاں ۔گھر کی تعمیر اور ریٹائر لائف کے اخراجات۔ان 20 سالوں کی آمدن کو انشورڈ کرنے کے لیے اس فارمولے سے رہنمائی لی جاتی یے۔
ماہانہ آمدن=؟
کل سالانہ آمدن=؟
کل سالانہ آمدن ×20=؟
اس کل رقم سے آخری زیرو ختم کردیا جائے تو اس فرد کی انشورنس کی موجودہ ضرورت والی رقم سامنے آجاتی ہے۔
اس رقم کی انشورنس کی اس وقت ضرورت ہے اور یہ انشورنس اس فرد کے پاس ہونا ضروری ہے۔
اب جو ادارہ یا کمپنی انشورنس دے رہی ہے اس کے لائف ٹیبل پہ درج ریٹ کے حساب سے اسے انشورنس دے دی جائے۔
لائف انشورنس کی اقسام
ہول لائف انشورنس
ٹرم انشورنس
ہول لائف میں ساری زندگی کی انشورنس ہوتی ہے اور یہ پلان 85 سال کی عمر میں ختم ہوتا ہے۔اس میں پریمئیم ریٹ انتہائی کم ہوتے ہیں۔
ٹرم لائف
ٹرم انشورنس میں ایک ٹرم کو مقرر کرلیا جاتا یے۔موجودہ دور اور خاص کر پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے انشورنس کو ہی قابل عمل حل سمجھا جاتا ہے۔بچوں کی تعلیم اور شادیوں کے اخراجات اور گھر کی تعمیر اور ریٹائر لائف سب کو اسی انشورنس سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔
لہذا یہاں ہم ہاورڈ والے فارمولے کے عین مطابق پلان تجویز کرتے ہیں۔
اس ضمن میں اسٹیٹ لائف کے پاس اچھے ٹرم پلان موجود ہیں۔
1۔ انڈومنٹ پلان
2۔ 3 پے منٹ پلان
3۔ آپشنل میچورٹی پلان
4۔ جیون ساتھی پلان
5۔ شاد آباد پلان
6۔ چائلڈ پروٹیکشن پلان
7۔ چائلڈ ایجوکیشن اینڈ میرج پلان
یہ چند مشہور انشورنس پلان ہیں جو اسٹیٹ لائف میں پریکٹس ہورہے ہیں
اس انشورنس کو بہتر بنانے کے لیے اضافی رائڈرز بھی موجود ہیں۔جو کہ بنیادی انشورنس کو بہتر بنانے کے لیے ہوتے ہیں ان کے ریٹ الگ سے ہوتے ہیں۔
*چند مشہور رائڈرز*
اے ڈی بی۔
حادثاتی موت کا ضمنی معاہدہ۔
2۔ اے آئی بی
یہ حادثے کی صورت موت اور زندہ رہنے پر انڈیمنٹی رائڈر ہے۔
3۔ ایف آئی بی۔
فیملی انکم بینیفٹ رائڈر۔
رائڈر کیسے پالیسی پہ اثر ڈالتے ہیں۔
مثال اگر اے ڈی بی رائڈر کسی پالیسی میں لگا ہوا ہے۔تو کیا ترتیب ہوگی۔
انشورنس پلان 5 لاکھ
اور اس کے ساتھ اے ڈی بی لگا ہوا ہے۔جن کے ریٹ طے کرکے ایک پریمئیم بنا لیا گیا۔اب اگر اس فرد کی طبعی موت واقع ہوتی ہے تواس کے خاندان کو 5 لاکھ روپے ادا کیا جائے گا۔
اگر وفات حادثے سے ہوتی ہے تو اے ڈی بی رائڈر کی وجہ سے اس انشورنس کے زر بیمہ کو دگنا ادا کیا جائے گا۔
یعنی 5 لاکھ طبعی موت والا اب حادثے کی موت میں 10 لاکھ ادا ہوگا۔
اب اسی پالیسی میں ایف آئی بی یعنی فیملی انکم بینیفٹ کا رائڈر بھی لگا ہوا یے تو اس کے خاندان کو اوپر درج کردہ دونوں رقموں کے علاوہ سالانہ پینشن بھی دی جائے گی۔
جس کی شرح پالیسی شروع ہوتے وقت طے کرلی جاتی ہے۔
اگر ایف آئی بی کی شرح 10 فیصد رکھی گئی یے تو موت کی صورت اس کے خاندان کو زربیمہ کا 10 فیصد سالانہ ادا کیا جائے گا۔
یعنی مثال اگر 5 لاکھ کا پلان تھا تو سالانہ پینشن 10 فیصد کے حساب سے 50000 روپے بنے گی۔اور یہ پالیسی کی مدت تکمیل تک ملے گا۔اور اس میں ہر سال 7 اعشاریہ 5 کے حساب سے اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔
__
*میچورٹی یعنی تکمیلی فوائد۔*
بونسز
اسٹیٹ لائف یا کوئی بھی انشورنس کا ادارہ جب کسی فرد کی زندگی کو انشورڈ کرتا ہے تو وہ اس کا رسک اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔
مثال 5 لاکھ کی انشورنس میں پہلا پریمئیم 25000 روپے ادا ہوا لیکن ادارے کی رقم 5 لاکھ رسک پر ہے جو اس فرد کی اچانک موت کی صورت ادا کی جانی ہے۔ایسی صورت کوئی بھی انشورر اس ٹرم پورا ہونے پر اس محفوظ رقم کو ادا نہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔۔کیونکہ 20 سال ادارہ بھی رسک پہ رہا۔اگر پالیسی کے جاری ہونے کے پہلے دن ہی فرد کی موت ہوجاتی تو ادارے کو کثیر رقم ادا کرنا تھی جو کہ معاہدے کی صورت ادارہ پابند تھا۔۔۔اب یہ انشورر کی خوش قسمتی کہ وہ مجوز فرد زندہ رہا اور ادارے کو وہ نقصان نہ ہوا جس کا احتمال تھا۔
مغربی ممالک اور خود پاکستان میں نجی سطح پر کام کرنے والی انشورنس کمپنیاں لائف فنڈ کی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع کو کمپنی کے مالک کا حق تصور کرتی ہیں۔اس لیے مدت مکمل ہونے پر کوئی تکمیلی فائدہ نہیں دیا جاتا۔زیادہ سے زیادہ زربیمہ جو سالانہ پریمئیم ادا کرنے کی صورت بنا تھا وہی رقم واپس کی جاتی ہے۔
لیکن پاکستان میں انشورنس کا نظام سرکاری تحویل میں ہونے کی وجہ سے سرمایہ تقسیم نہیں ہوا۔اور ادارے کا لائف فنڈ بڑھتا گیا۔اس لائف فنڈ میں آنے والی رقم کی سرمایہ کاری کی گئی جس سے حاصل ہونے والے منافع کو جس کا کوئی مالک نہ تھا اس منافع کا مالک پالیسی ہولڈرز کو بنا دیا گیا۔
اور شرح اموات کم ہونے کی وجہ سے بھی فاضل سرمایہ جو لائف فنڈ میں موجود تھا وہ بڑھتا گیا۔
اب اسٹیٹ لائف ہرسال اس بڑے حجم سے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے اور واپس بہتر منافع حاصل کرکے پالیسی ہولڈرز کی پالیسز میں بطور بونس لگا دیا جاتا ہے۔بونس اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس رقم پہ پالیسی ہولڈرز کا حق نہیں ہے معاہدے کی اصل صورت میں موت کی صورت زربیمہ ادا کرنے کا ادارہ پابند تھا اب یہ ادارے کی خوش قسمتی کہ مجوز کی وفات نہیں ہوئی۔
پاکستان میں اسٹیٹ لائف ہر سال پالیسی ہولڈرز کی رقم کو مارکیٹ میں انویسٹ کرکے بھاری منافع حاصل کرتی ہے اور یہ منافع سال بہ سال ان پالیسز میں درج کردیا جاتا ہے۔جو مدت مکمل ہونے پر پالیسی ہولڈرز کو ادا کردیا جاتا ہے۔اسے میچورٹی یعنی تکمیلی فوائد کہا جاتا ہے۔
اس سے فرد اپنے معاشی منصوبے مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ رقم اس کے بچوں کی تعلیم اور شادیوں میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
__
مزید برآں اسٹیٹ لائف بحثیت انشورر اپنے پالیسی ہولڈرز کے لیے مزید فوائد بھی جاری کرتا رہتا ہے۔
پالیسی پر قرض کی سہولت۔
اسٹیٹ لائف بحثیت ادارہ اپنے پالیسی ہولڈرز کو مکمل معاشی سکون فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔پالیسی ہولڈرز کو لاحق معاشی خطروں میں بھی معاونت کی جاتی ہے جو کہ دراصل پالیسی کے معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ پالیسی ہولڈرز کو قرض کی سہولت دی جاتی ہے جو کہ کسی مجبوری میں درکار ہوتا ہے۔پالیسی کے 3 سال مکمل ہونے پر یہ سہولت مہیا کی جاتی ہے۔فرد اپنے ہی ادا شدہ پریمئیم کو بطور قرض واپس لے لیتا ہے۔تاکہ وہ اپنےکسی مجبوری کو حل کرسکے۔چونکہ پالیسی ہولڈرز اس فنڈ سے پیسہ نکال لیتا ہے جو کہ باقی پالیسی ہولڈرز کے ساتھ مل کر مارکیٹ میں انویسٹ ہونا تھا۔اور اس رقم کو انفلیشن یا افراط زر کا خطرہ بھی لاحق ہے جس سے وہ اصل کرنسی جو قرض کے طور حاصل کی گئ تھی وہ ڈی ویلیو ہوسکتی یے۔ایسی صورت ادارہ پالیسی ہولڈر سے اس قرض کی رقم پر مارک اپ وصول کرتا ہے تاکہ اس کے لائف فنڈ کو منظم کیا جائے۔ساتھ ساتھ اس فرد کو بونس بھی ادا کرنا ہے۔
لائف انشورنس پالیسی کا حقیقی تعارف اور اس کے فوائد سے آپ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ پاکستان میں انشورنس کا علم ابھی تک عام نہیں ہوسکا۔لہذا آپ اس تحریر کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔
سید عدنان کاظمی
ایریا مینیجر
اسٹیٹ لائف پاکستان
Copied