Kalasha Tours and Adventures

Kalasha Tours and Adventures We are the first native explorer, especially in the three Valleys of Kalash, based in Peshawar, KP.
(6)

Ghizzer GB
25/07/2024

Ghizzer GB

A place of comfort and satisfaction ...
24/07/2024

A place of comfort and satisfaction ...

18/07/2024
Thanks for being a top engager and making it on to my weekly engagement list! 🎉 Saniul Islam, Sameer G Jo, Andi Abdullah...
28/06/2024

Thanks for being a top engager and making it on to my weekly engagement list! 🎉 Saniul Islam, Sameer G Jo, Andi Abdullah, Zafar Zafar, Sim Aru Aru

   Valley
26/06/2024

Valley

 Chitral Kp....
26/06/2024


Chitral Kp....

25/06/2024

25/06/2024

سیالکوٹ کے سیاح کو جب سوات میں جلایا جارہا تھا، تم کہاں تھے؟

میں کہاں تھا؟

میں پہاڑوں کے دامن اور دریا کے کنارے پر واقع بونی ڈگری کالج کی ایک وسیع لائبریری میں تھا۔ یہاں اساتذہ نے بیٹھے بیٹھے ایک سٹڈی سرکل جمادیا تھا۔ چیری کھاتے تھے اور بات کہتے تھے۔

میں مذہبی رجحان رکھنے والے ایک استاد سے لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ رہا تھا کہ آپ کا یہ تصور غلط ہے کہ اخلاقیات ہمیں در اصل اسلام نے سکھائی ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کی بحث میں مسلسل یہ ایک بات مجھے متوجہ کر رہی تھی کہ اس استاد کے جذبات کسی بات پر مجروح نہیں ہو رہے تھے۔

جب جانے لگے تو انہوں نے تین بار کہا، میری کسی بات سے آپ کا دل دکھا ہو تو میں معافی چاہتا ہوں۔

میں بونی کے ایک پُر بہار گیسٹ ہاوس میں کھوار زبان کے ایک مست الست شاعر کے ساتھ بیٹھا تھا۔ یہ شاعر عقیدے کا سنی ہے، مگر آغا خان چہارم شاہ کریم کی چترال آمد پر اس نے قصیدہ لکھا تھا۔ بارہویں گاوں تک بھی کوئی ایسا مسلمان دل نہیں ملا جو سنی شاعر کی اس جسارت پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہو۔

میں فخر عالم کے ساتھ بونی کی خستہ شکستہ سڑک پر پیدل چل رہا تھا۔ دریا کی جانب موڑ کاٹنے سے پہلے سڑک کی دائیں جانب اسماعیلی جماعت خانہ آیا اور بائیں جانب سنی مسجد آئی۔ پتہ چلا کہ یہ دونوں عبادت خانے دونوں مسالک کے پیروکاروں نے باہمی تعاون سے تعمیر کیے تھے۔ ایسا کرتے وقت کسی بھی مرحلے پر اسلام کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا تھا۔

میں اوی میں ایک دوست کے ہاں بیٹھا تھا۔ پیچھے سے دریا کا شور سنائی دیتا تھا سامنے درختوں کے بیچ سے چاند دکھائی دیتا تھا۔ محفل میں بیٹھے مختلف مسالک کے پیروکار ایک دوسرے کے مسلک اور آئمہ پر طنزیہ جملے کس رہے تھے۔ قہقہے بلند ہورہے تھے، مگر کسی بھی شخص کی عقیدے والی ڈاڑھ گرم نہیں ہورہی تھی۔

میں دریا کے کنارے بیچان ہوٹل کے ہرے بھرے لان میں بیٹھا تھا۔ ہواوں میں تیزی آرہی تھی اور سورج پہاڑ کی دوسری جانب اتر رہا تھا۔ لان کے دوسرے کونے پر ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔

نماز کے بعد جب اس نے اپنے خدا کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو جینی (میری پالتو کتیا) چلتے چلتے اس شخص کی جائے نماز پر چڑھ گئی۔ کم بختی کہ وہیں رک گئی۔ میں اس بات پر ڈر کے جینی کی طرف لپکا کہ یہ جائے نماز کی توہین کا مسئلہ نہ بن جائے۔ ایک نمازی کی دل آزاری کا مقدمہ نہ کھڑا ہوجائے۔

میں نے جینی کو ہٹانا چاہا تو دعا گزار نے ایک ہاتھ دعا کے لیے ہوا میں رکھا اور دوسرا ہاتھ میرے ہاتھ پر مار کر اشارہ کیا کہ کوئی بات نہیں، اس کو کھیلنے دو۔ دل آزاری تو کیا، اس نمازی کے کپڑے تک ناپاک نہیں ہوئے۔

میں کوراغ کے بازار سے گزر رہا تھا، جب ایک جوان نے اچانک بریک مارکر اپنی منی جیپ ایک طرف لگائی اور میری طرف آکر پرجوش انداز میں گلے ملا۔ میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بولا، سر آپ کے خیالات سے مجھے ذرہ بھر اتفاق نہیں ہے، مگر مجھے آپ سے محبت ہے۔ پلیز آپ میرے گھر آئیں، وہیں رکیں۔

میں ان راستوں سے پہلی بار نہیں گزرا تھا۔ دو برس قبل کالاش سے چترال کی طرف جارہا تھا جب ایک اسماعیلی استاد نے فون کرکے کہا کہ 'آغوش' میں ہمارے جماعت اسلامی کے ایک دوست ہوتے ہیں، ان سے ملتے ہوئے آئیں۔ خوش گوار حیرت نے مجھے حصار میں لے لیا۔ ایک اسماعیلی ایک سنی کے لیے ایک خدا کے مارے ہوئے کو فون کر رہا ہے؟

میں نے منان ایڈوکیٹ اور فخر کی طرف دیکھا۔ میری طرح وہ بھی کچھ خاص آمادہ نہیں تھے۔ رمضان کا مہینہ ہے، روزے سے ہم نے خود کو چھوٹ دے رکھی ہے، دوست کعبے کے پاسبان ہیں، ہم مردود حرم ہیں، کیوں اپنی اور کسی اور کی مشکل میں اضافہ کریں؟ جماعت اسلامی کے دوست نے خود رابطہ کرکے کہا، ہمارا دفتر راستے میں ہے، یونہی گزر گئے تو بہت دکھ ہوگا۔

دل آمادہ ہوگئے، ہم چلے گئے۔ ہم نے مگر کسی بھی تلکف سے انہیں منع کیا۔ دن دو بجے جو چائے ہمیں 'آغوش' میں ملی، وہ پورے چترال میں کہیں نہیں ملی۔ لوازمات کی خستگی اور تازگی اس کے سوا تھی۔

چائے روزہ داروں کے سامنے ہی پیش کی گئی۔ دفتر کے روزہ دار ملازمین بیٹھے تھے، مگر کسی کے روزے پر ہمارے روزہ خوری سے فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ جاتے ہوئے انہوں نے کہا، صرف آدھے گھنٹے میں لنچ ریڈی کیا جاسکتا ہے۔

میں انتظار کاٹنے کے لیے ایک ہوٹل کے باغ میں بیٹھا تھا، جہاں سے شاہی مسجد کے لال اینٹوں والے گنبد و مینار نظر آتے تھے۔

یہ وہ مسجد ہے جہاں نماز کے بعد ایک شخص نے کھڑے ہوکر نبوت کا اعلان کردیا تھا۔ اس سے پہلے کہ خلقت ٹوٹ پڑتی امام مسجد نے دعا چھوڑی اور اس شخص کو دبوچ کر محراب کے دروازے سے بحفاظت باہر لے گیا۔

لوگوں نے مشتعل ہوکر امام مسجد کے گھر کا گھیراو کیا اور گاڑی نذر آتش کردی۔ امام نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ماحول سازگار ہوا تو انہوں نے سمجھایا کہ دیکھو تم اچھے لوگ ہو۔ اچھے لوگ نبوت کا اعلان کرنے والے لوگوں کو مارتے نہیں ہیں۔ ان کی ذہنی صحت کے لیے فکرمند ہوتے ہیں۔

میں نے دیکھا تھا۔ میں نے کسی بازار میں انسان کو جلتے ہوئے بالکل دیکھا تھا۔ مگر میں نے فون بند کرکے ایک طرف رکھ دیا۔ میں اس غلط فہمی میں رہنا چاہتا تھا کہ یہ کوئی پرانی ویڈیو ہے۔ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ رات گزر گئی اور صبح ہوگئی، میرے آس پاس کسی نے اس واقعے کا ذکر تک نہیں کیا۔ یقین ہونے لگا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہوگا۔ فون کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ بھی پچھلے دنوں رونما ہونے والے ہر واقعے کی طرح سچا ہے۔

ٹیگ کرکے مجھ سے ہی کسی نے پوچھا ہوا تھا، پنجاب کے سیاحوں کو سوات میں جلایا جارہا ہے، تم کہا ہو؟ ایک نئی اذیت! اب اس واقعے کو پختون پنجابی فسادات والے لینز سے دیکھنا پڑے گا؟

میں نے پھر فون بند کردیا۔ بھئی میں بھاگ کر زندگی کی طرف آیا ہوں، فیس بک کے راستے سے واپس اُن علاقوں کی طرف کیوں جاوں جن کے ماحول کو سٹیٹ سپانسرڈ تعلیمی سکیموں اور زرخرید علمی رجحانات نے آلودہ کردیا ہے۔

چترال بہشت کا کوئی بالا خانہ نہیں ہے، مگر یہ احساس زندگی دیتا ہے کہ یہاں کسی کے ذاتی خدا کو ابھی ریاستی اشرافیہ نے اُس طرح سے اپنے قبضے میں نہیں لیا ہے۔ جنگی معیشت کا سیلاب ابھی اس طرف نہیں آیا ہے۔ اسی لیے دوسروں کی نیت کو ماپنے اور دل میں جھانکنے کی روایت ابھی یہاں پیدا نہیں ہوئی۔

ایسا نہیں ہے کہ چترال میں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک دیوبندی مولوی نے اسی کی دہائی میں پورے چترال کو آگ میں جھونک دیا تھا۔ محراب میں نصب گفتار کی منجنیق سے ہر طرف فتوے داغے جارہے تھے۔ سنی اور اسماعیلی باہم الجھ گئے تھے۔ مگر یہ الجھ گئے تھے، الجھائے نہیں گئے تھے۔

جو الجھائی جاتی ہے، اس کہانی کی سزا چار نسلیں بھگتتی ہیں۔ جو الجھ جاتی ہے، اس کہانی کو علاقے کی ثقافت ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ وقت خود کار طریقے سے اس کہانی کا زہر ماردیتا ہے۔

خود دیکھ لیں!

کراچی، لاہور اور سوات میں آج پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی سر تن سے الگ کرنے کی خواہش میں دفاتر کھل رہے ہیں۔ چترال میں جہاں چالیس برس قبل جماعت خانہ جلایا گیا تھا وہاں اب ڈائیگناسٹک سینٹر کھل گیا ہے۔ جس مولوی نے جلایا تھا، اس کا بیٹا بہتے پانیوں کے پاس بیٹھ کر جیری کین بجارہا ہے اور زندگی کے گیت گارہا ہے۔

فرنود عالم

Kalasha Tours and Adventuresکی طرف سے تمام اہل وطن اور عالم اسلام کو عید الاضحیٰ مبارک ہو۔۔۔
17/06/2024

Kalasha Tours and Adventures
کی طرف سے تمام اہل وطن اور عالم اسلام کو عید الاضحیٰ مبارک ہو۔۔۔

16/06/2024

🌟 Young Voice, Big Impact: Miss Noor ul Ain Harir, 11 Years Old from Chitral Valley 🌟

We were honored to hear Miss Noor ul Ain Harir from Chitral Valley speak at the Pakistan Travel and Tourism Symposium. Her eloquent and passionate speech highlighted the unique beauty and cultural richness of Chitral, inspiring everyone in attendance. Thank you, Noor ul Ain Harir, for sharing your vision and enthusiasm for promoting tourism in Pakistan.

Indeed The   tribes keeps everything unique and something else from all...here is a unique way and access to two Kalash ...
16/06/2024

Indeed The tribes keeps everything unique and something else from all...

here is a unique way and access to two Kalash Homes..

    somewhere in Upper Chitral and natural cool.....
13/06/2024

somewhere in Upper Chitral and natural cool.....

Evening scene @
13/06/2024

Evening scene @

  with Local  at    ...
13/06/2024

with Local
at ...

درہ شندور اور شندور میلہتحریر :منیجر ظہیرالدین۔درہ شندور پاکستان کی انتہائی شمال میں ایک اہم درہ ہے شندور پاس چترال اور ...
12/06/2024

درہ شندور اور شندور میلہ
تحریر :منیجر ظہیرالدین۔

درہ شندور پاکستان کی انتہائی شمال میں ایک اہم درہ ہے شندور پاس چترال اور گلگت کو ملانےکااہم ترین راستہ ہے مئی سے ستمبر کے مہنے تک یہ درہ اپنے حسن اور دلکشی سے سیاحوں کو اپنی طرف کھنچتی ہے شندور کے ایک جانب خشکی اور دوسری جانب ایک بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی دو میل ہے۔شندور کے اخری حصے میں ایک صاف شفاف دریا ہے۔جس میں بہترین اقسام کے مچھلی پائی جاتی ہیں۔اور دریا کے کناروں پر خوبصورت پھول اور جنگلی پودے پائے جاتے ہیں۔

شندور سے اگے ایک شفابخش چشمہ بھی موجود ہے۔اس چشمے کا پانی مختلف امراض کے لیے شفا بخش ہے۔جولائی کے شروغ میں شندور کی خوبصورتی اور شادابی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ اس مہینے میں شندور فسٹول بھی منایا جاتا ہے۔ اس فسٹول میں چترال اور گلگت کے درمیاں پولو میچ کا مقابلہ قابل دید ہے۔پولو کاکھیل چترال اور گلگت میں مرکزی کھیل کی حثیت رکھتا ہے۔ماضی میں والیاں ریاست اس کھیل کی خود سرپرستی کرتے تھے۔چترال کی ریاستی حکمران سر شجاع الملک شندور پولو گراونڈ کے اردگرد دیواریں بنا کر گراونڈ تزائین و ارائیش کی۔اور شندور میں پہلا پولو میلہ شروغ ہوا۔ اس وقت کے انگریز پولیٹکل ایجنٹ میجر کوب چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقیں تھا۔اور شندور پولو گراونڈ کو ماحوران گراونڈ اور مس جونالی کا نام دیا گیا۔اور 1982 میں باقاعدہ سالانہ جشن منانے کی حثیت دی گئی۔ جس کے دوران چترال اور گلگت والے انتہائی دلچسپی اور جوش و جزبے سے پولو میچ دیکھتے ہیں۔اور اپنے اپنے کھلاڑیوں کو شاباش دیتے ہیں اور اپنے اپنے جزبات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شندور کی دلکشی اور دلفریبی اتنا زیادہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی سیاح اپنے سفر ناموں میں خصوصی طور پر اس کی زکر کرتے ہیں۔جشن شندور کو ایک خاص تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے شندور پولو گراونڈ دنیا کا سب سے بلند ترین پولو گراونڈ ہے۔اور دریا شندور ان علاقوں کی پہچان ہے۔
Chitraltimes

  Chitral KP.....
11/06/2024

Chitral KP.....

Todays best...❤💙...........................................................................................................
11/06/2024

Todays best...❤💙...................................................................................................................

08/06/2024

Infact the great share and distribute love and respect not only Milk food and Dry Fruits among Guests and Tourists...

Its our duty to respect back to them and share love with them in their Festivities and their special days.....

  season is going to on in the Valleys of Chitral soon especially in those nothern valleys where spring water access to ...
06/06/2024

season is going to on in the Valleys of Chitral soon especially in those nothern valleys where spring water access to plants and also enough sun heat to get ready.
Visitors, Nature Tradition lovers and Cherry lovers are informed to get packed and call us to book your seat for upcoming tour to Chitral from Islamabad, Lahore and Peshawar...
Also visit and see indigenous Tribe in their Normal lives....

06/06/2024




Address

Chitral

Telephone

03331919212

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kalasha Tours and Adventures posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kalasha Tours and Adventures:

Videos

Share

Category

Nearby travel agencies


Other Tour Guides in Chitral

Show All