Adil Lahorei Cultural Club

Adil Lahorei Cultural Club Adil Lahorei Cultural Club stands as a milestone in exploring the hidden treasure of historical city of Lahore. As we have rich culture & history to share.
(42)

Pakistan inherits a rich culture of Great Mughal have left behind in shape of buildings, gardens and monuments. Today even these are of great attraction for the people, especially the young generation. These youngsters and even the foreigners visiting Pakistan have great attraction for Lahore. LAHORE seeing rules of many dynasties still holds great treasures within itself. As the time wades the ol

d culture still there are steps to be followed and enjoyed. Like touring the WALLED CITY OF LAHORE, in TANGAS. This was once a Royal mean of transport, that even the British Rule enjoyed moving about in Tangas. Being an ancient mean of moving nowadays have become an enjoyable mean of excursion. Adil Lahorei as his name is pure Lahore born and brought up in this historical city, well knows the magic hidden in these places. Being a son of the Lahore's soil Adil holds a good grip over the historical places as he has visited these places number of times, gathered all stories from the seniors living in those areas, these stories traveled from heart to heart & generation to generation. This was a real treasure that Adil Lahorei decided to create interest to explore the historical city of Lahore and share it with the new young generation as they must be aware of this Royal City of Lahore. Means of transport are many in the world but horse has been an ancient and easy mean of travelling. Since the very beginning people used just horses to travel far & wide for trading and even in wars. But horse is a peaceful animal who love to be treated with soft feelings and love. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB stands as a milestone in exploring the hidden treasure of historical city, LAHORE. Adopting horse carrying seems to be real attraction for the youngsters. Tonga Tour is a weekly activity which is organized by ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB. People really enjoy exploring the WALLED CITY with Adil. Starting at early morning and with whole day's plan carries tour to KAMRAN'S BARA DARI at Ravi, Jehangir's Tomb across the Ravi at Shahdra, the gates of lahore then while enjoying the tonga ride all visit the Lahore Fort, which carries history of many invaders in Lahore. Each ruler have their strong roots deeply en-planted around the great fort. These tours are not only for natives rather they capture the height of interest & attraction of foreigners. Being a source of attraction for the people from far & wide sub- continent always have been of great attraction. The rulers left behind a lot more for the generations to enjoy and know about the culture the kings and queens were living in. If Lahore Fort tells us about the different rulers of Lahore (Indo- Pak), the Shalimar Garden and Jehangir's Tomb also show us that even after their death they have same royal status. No matter these are places where today people love going for family picnics and enjoyment. One can feel the air of those royalties living around. ADIL LAHOREI CULTURE CLUB holds a sound grip over the history of Lahore and it's surroundings. As well as the mysteries of the city dwelling within the WALLED CITY of Lahore. During the grand past Lahore was just surrounded by walls and had 12 gates to the entry, which were guarded by the royal guards. As the time passed by the city developed and Lahore is now expanded from all edges. Nowadays hardly anyone knows even the names of those 12 gates. 1. Lahori Gate 2. Delhi Gate, 3. Sheranwalan Gate, 4. Mochi Gate, 5. Masti Gate, 6. Shah Alam Gate, 7. Bhatti Gate, 8. Roshnai Gate, 9. Taxali Gate, 10. Akabari Gate, 11. Mori gate 12. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB also conduct different activities to present the Punjab's culture by promoting in different phases. Dramas, cultural activities like as food and dress show are also conducted by them. Our Cultural Activities
1- Tonga Tour walled city of lahore
2- Cultural walk for the formation and Restoration of Culture
3- To get the chance for youth
4- To perform in Mega event in our special and traditional dresses
Membership is available on very minimum amount to join them and know about their activities.
team
Adil Lahorei CEO ALCC
Nida Nasir : Manager ALCC
Nouman Nasir : Official Photographer ALCC
Ali / Usman / Sabir / Nouman / Ozair : Event organizer
Muhammad Ali : Media Manager

02/10/2024

میرے دیس میں ۔ عارف لوہار، عارفہ صدیقی
"پی ٹی وی کے سُروں میں لپٹی یادیں، جو ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی!"
یہ خوبصورت دل نہ جانے کہاں کھو گئے ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا 🇵🇰❤️

A especial thanks for world famous Vlogger Eva on this tourism day. Thank you very much Eva zu Beck for coming to Pakist...
27/09/2024

A especial thanks for world famous Vlogger Eva on this tourism day.
Thank you very much Eva zu Beck for coming to Pakistan and promoting our tourism. We are grateful to you for your excellent impression of Pakistan. Although we still lag behind other countries in tourism but I hope that thanks to people like you, we can move towards improvement.
Thank you on the behalf of People of Pakistan

19/09/2024

لاہور رونقوں کا شہر محبتوں کا شہر میلوں کا شہر
لاھور لاھور اے
🇵🇰❤️

آبائی گھروں کے دکھ.... نصیر احمد ناصرآبائی گھر ایک سے ہوتے ہیںڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے...
07/09/2024

آبائی گھروں کے دکھ
.... نصیر احمد ناصر

آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں
ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے
لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے
آبائی گھروں میں
گِھسی ہوئی سرخ اینٹوں کے فرش
اور چُونا گچ نَم خوردہ دیواریں
بے تحاشا بڑھی ہوئی بیلیں
چھتوں پر اُگی ہوئی لمبی گھاس
اور املی اور املتاس کے درخت
ایک دائمی سوگواریت لیے ہوئے
ایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں

آبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیں
پڑچھتیوں پر پیتل اور تانبے کے برتن
گرد جھاڑنے، قلعی کرنے والے ہاتھوں کا انتظار کرتے ہیں
چنیوٹ کا فرنیچر
اور گجرات کی پیالیاں اور چینکیں
خالی پڑی رہتی ہیں
کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اور برساتیاں
اترنے کی منتظر رہتی ہیں
اور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاں
سہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیں
فریم کیے ہوئے شجرے،
بلیک اینڈ وائٹ اور سیپیا تصویریں
اور طاقوں میں رکھی ہوئی مقدس کتابیں
اور کامریڈی دور کا مارکسی ادب
سب کچھ اپنی اپنی جگہ پڑا ہوتا ہے

آبائی گھروں کے مکین بھی ایک سے ہوتے ہیں
بیرونی دروازوں پر نظریں جمائے، آخری نمبر کا چشمہ لگائے
بینائی سے تقریباً محروم مائیں
اور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپ
اور اپنے تئیں کسی عظیم مقصد کے لیے جان دینے والوں کی بیوائیں
جو کبھی جوان اور پُر جوش رہی ہوں گی
آبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیں
زمانے کھانستے ہیں
آبائی گھر لَوٹ آنے کے وعدوں پر
باوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیں
اور کبھی نہ آنے والوں کے لیے
دل اور دروازے کُھلے رکھتے ہیں

شاعروں کے لیے
آبائی گلیوں کی دوپہروں
اور پچھواڑے کے باغوں سے بڑا رومانس کیا ہو سکتا ہے
جہاں تتلیاں پروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتیں
اور پھولوں اور پتوں پر کریش لینڈنگ کرتی ہیں
اور دھوپ اور بارش کے بغیر
قوسِ قزح جیسی ہنسی بکھرتی ہے
اور نسائم جیسی لڑکیاں سات رنگوں کی گنتی بھول جاتی ہیں
آبائی گھروں میں
وقت بوڑھا نہیں ہوتا
دراصل ہم بچے نہیں رہتے
اور کھلونوں کے بجائے اصلی کاریں چلانے لگتے ہیں
اور کبھی کبھی اصلی گنیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔

آبائی گھروں کو جانے والے راستے بھی ایک سے ہوتے ہیں
سنسان اور گرد آلود
مسافروں سے تہی
جن پر بگولے اڑتے ہیں
یا میت اٹھائے کبھی کبھی کوئی ایمبولینس گزرتی ہے
پھلاہی اور کیکروں سے ڈھکے آبائی قبرستان
تھوڑی دیر کے لیے آباد ہوتے ہیں
ا

05/09/2024

6 ستمبر رات کو تارا ⭐ طلوع ہو جائے گا۔
22 بھادوں کو تارا ⭐ طلوع ہوتا ہے اور دیسی موسمی فورکاسٹ کے مطابق ہم سردیوں میں داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ 22 بھادوں کے بعد مکھی،مچھر کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور مویشی رکھنے والے دوست پھر مال مویشی کے لئے دھواں نہیں لگاتے۔
22 بھادوں کے ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد اسوج شروع ہو جاتا ہے اور اس مہینے میں صبح کے وقت شمال کی طرف سے ہوائیں چلتی ہیں جو کہ نارمل سے ٹھنڈی ہوتی ہیں اور درجہ حرارت گرانے میں کافی مدد دیتی ہیں۔

لاھور کے اب طوطے اڑ چکے ہیں بہت مدتوں بات ہے اس خوبصورت طوطے کو دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی  کیا خوبصورت وق...
29/08/2024

لاھور کے اب طوطے اڑ چکے ہیں
بہت مدتوں بات ہے اس خوبصورت طوطے کو دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی
کیا خوبصورت وقت تھا جب ہم صبح سویرے اور شام ڈھلے طوطوں کے ٹولیوں کو چھتوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے ان کے چہچہانے کی اوازیں زندگی خوبصورت ہونے کا تاثر دیتی تھی
اب تم مدتیں ہو گئی ہیں ٹولیوں کو دیکھے ہوئے
یہ طوطے بھی لاہور سے روٹھ گئے ہم نے درختوں کو اتنی بے دردی سے کاٹا اور قدرت کے نظام میں مداخلت کی اج انجام اپ کے سامنے

لاھور جو ایک شہر تھا اب ایک ہجوم ہے ۔۔

. جی پی او لاھور 1887 میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس نے انارکلی بازار کے ٹیلی گراف ...
26/08/2024

. جی پی او لاھور 1887 میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس نے انارکلی بازار کے ٹیلی گراف آفس کی جگہ لے لی تھی۔ اس عمارت کا ڈیزائن اور تعمیر سر گنگا رام نے کیا تھا،
*جی پی او لاھور* کو 17ویں صدی کے بزرگ شاہ چراغ کے مزار کے قریب بنایا گیا تھا۔

فورٹریس سٹیڈیم لاھور  کی ایک پرانی تصویر
23/08/2024

فورٹریس سٹیڈیم لاھور کی ایک پرانی تصویر

ہم سے بہت لوگوں کو یاد ہوگی نیو خان میٹرو بس 🚌 پورے لاہور کے مختلف روٹ تھےیقینا طالب علم کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اس...
23/08/2024

ہم سے بہت لوگوں کو یاد ہوگی

نیو خان میٹرو بس 🚌

پورے لاہور کے مختلف روٹ تھے
یقینا طالب علم کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اس پہ سفر کیا ہوگا دو روپے کی ٹکٹ پھر پانچ روپے کی اور پھر 12 روپے کی

Shahdahra Lahore early 70s Picture credit Brian Paul Bach
19/08/2024

Shahdahra Lahore early 70s
Picture credit Brian Paul Bach

آم🥭 کے ناموں کی تاریخ1۔ چونسہ آم شیر شاہ سوری نے جب ہمایوں پر فتح حاصل کی تو چوسا، بہار، انڈیا کے مقام پر اسے یہ مزے دار...
19/08/2024

آم🥭 کے ناموں کی تاریخ

1۔ چونسہ آم
شیر شاہ سوری نے جب ہمایوں پر فتح حاصل کی تو چوسا، بہار، انڈیا کے مقام پر اسے یہ مزے دار آم کھانے کو ملے۔۔۔ اسی وقت سے اس کا نام چونسہ کا آم اور چونسہ مشہور ہوگیا۔
چوسا کی جنگ مغل بادشاہ، ہمایوں اور افغان شیر شاہ سوری کے درمیان ایک قابل ذکر معرکہ تھا۔ یہ 26 جون 1539 کو چوسا کے مقام پر لڑی گئی، جو بکسر کے جنوب مغرب میں 10 میل دور جدید بہار، ہندوستان میں ہے ۔ ہمایوں اپنی جان بچانے کے لیے میدان جنگ سے فرار ہو گئے تھے۔ شیر شاہ فتح یاب ہوئے اور فرید الدین شیر شاہ کے نام سے ان کی تاج پوشی ہوئی۔

چونسہ آم کی خصوصیات:
1۔ اس کا سائز درمیانہ اور کبھی کبھی موٹا ہوتا ہے۔
2۔ بہت ہی میٹھا ہوتا ہے۔
3 اس میں فائبر کم ہوتا ہے۔
4۔ اس کا رنگ گولڈن ییلو ہوتا ہے۔
5۔ پھولوں (محبوب) جیسی خوشبو ہوتی ہے۔

2۔ انور رٹول
رٹول، یوپی، انڈیا کے مقام پر ایک کسان نے یہ آم اگایا۔ تقسیم سے پہلے جنوبی پنجاب، پاکستان میں اس نے اپنے والد انوار الحق کے نام سے اسی قسم کا پودا لگایا تھا۔ اسی نسبت سے اس کا نام انور رٹول رکھ دیا گیا۔

انور رٹول کی خصوصیات:
1۔ اس کا ایک خاص اوول شیپ ہوتی ہے اور جسامت چوٹی۔
2۔ شیریں اتنا کہ آفرین کہہ اٹھیں۔
3۔ اس کی اپنی ایک خاص مہک ہوتی ہے۔
4۔ چوس کے اور کاٹ کر کھایا جاتا ہے.
5۔ اس کا ملک شیک بہت مزے کا ہوتا ہے۔

3۔ سندھڑی آم
انیسویں صدی 1830ء کے شروع میں میرپور خاص، سندھ، پاکستان میں اس آم کی ورائٹی کو سب سے پہلے لگایا گیا۔ پہلے یہ سندھی اور پھر سندھڑی آم سے مشہور ہوگیا۔ یہ مارکیٹ میں سب سے پہلے تیار ہو کر اپنے نخرے دکھاتا ہے۔

خصوصیات:
1۔ اس کا سائز سب سے بڑا ہوتا ہے۔
2۔ ذائقہ کھٹ مٹھا اور مکھن جیسا ٹیکسچر ہوتا ہے۔
3۔ سب سے پہلے یہی مارکیٹ میں آتا ہے۔
4۔ اس کا پلپ اورنج سا ہوتا ہے۔
5۔ بہت جوسی ہوتا ہے۔

4۔ لنگڑا آم
کہتے ہیں کہ بنارس، انڈیا میں ایک لنگڑے آدمی نے اپنے گھر میں یہ آم لگایا تھا۔ لوگ جب اس کو کھاتے تو کہتے لنگڑے کا آم تو بڑا سوادی ہے یار۔۔۔ اس کے بعد پھر یہ آم لنگڑا ہی رہا۔۔۔ حالانکہ کسی نے اس کو لنگڑا کر چلتے نہیں دیکھا۔🥰

خصوصیات:
1۔ پکنے کے بعد بھی رنگ سبز ہوتا ہے۔
2۔ پلپ سے بھرپور ہوتا ہے۔
3۔ سائز چھوٹا اور چھلکا باریک ہوتا ہے۔
4۔ تھوڑی سی کھٹاس مارتا ہے۔
5۔ لنگڑا کہنے سے غصہ نہیں کرتا۔

5۔ دوسہری آم
عبد الحمید خان نے دوسہری کے مقام پر کاکوری کے قریب اپنے باغ میں یہ آم سب سے پہلے لگایا اور اپنے بہت ہی میٹھے ذائقے کی وجہ سے چاروں اطراف میں اس کی مشہوری ہوگئی۔

خصوصیات:
1۔ لمبوترا سا چھوٹا اور سائز درمیانہ
2۔ انگلیوں سے پولا (نرم) کرکے چوسا جاتا ہے۔
3۔ اس کا چھلکا آسانی سے اتر جاتا ہے۔
4۔ ملک شیک کے لیے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
5۔ اس کی خوشبو من کو بہت بھاتی ہے۔

بشکریہ: الیاس درانی

آج بُڈھے راوی کا دن ہے۔ دریائے راوی میں 50 ہزار کیوسک پانی کے ریلے کی آمد کی تیاری ہے۔سنہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے سے پہل...
19/08/2024

آج بُڈھے راوی کا دن ہے۔ دریائے راوی میں 50 ہزار کیوسک پانی کے ریلے کی آمد کی تیاری ہے۔

سنہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے سے پہلے راوی ہمالیہ سے سالانہ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی لے کر آتا تھا۔

تاہم انڈیا پاکستان کے درمیان اس معاہدے کے بعد راوی میں پانی کی سالانہ آمد 55 لاکھایکڑ فٹ تک گر گئی۔

سنہ 2000 میں انڈیا کی طرف سے تھئین ڈیم یا رنجیت ساگر ڈیم کی صورت 8 لاکھ ایکڑ فٹ کی سٹوریج کی جھیل بننے کے بعد راوی میں پانی کی آمد 10 لاکھ ایکڑ تک کم ہوگئی۔

سنہ 2024 میں راوی پر شاہ پور کنڈی بیراج کی تعمیر کے بعد راوی میں پانی کی آمد بالکل بند ہو چکی ہے۔

لاہور شہر کی زیرِزمین ایکوائفر دریائے راوی سے ریچارج ہوتی تھی جوکہ اب تیزی سے خُشک ہونا شروع ہوگئی ہے۔ راوی میں 55 ہزار کیوسک پانی کا ریلہ آنا خوش آئند ہے۔
بشکریہ
zafar iqbal wattoo

سُہانے موسم کا أغاز ۔۔۔۔۔۔ !!!16 اگست سے شروع ہونے والا پنجابی مہینہ بھادوں اور اُسکی دلچسپ روایات ۔۔۔۔۔دیسی کیلنڈر کا آ...
18/08/2024

سُہانے موسم کا أغاز ۔۔۔۔۔۔ !!!

16 اگست سے شروع ہونے والا پنجابی مہینہ بھادوں اور اُسکی دلچسپ روایات ۔۔۔۔۔

دیسی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے بادشاہ راجہ بکرم اجیت کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام کی وجہ سے یہ کلینڈر بکرمی کیلنڈر بھی کہلاتا ہے۔ بکرمی یا دیسی کیلنڈر بھی تین سو پینسٹھ (365) دنوں کا ہوتا ہے اور اس کیلنڈر کے 9 مہینے تیس (30) دنوں کے ہوتے ہیں جبکہ ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن ہوتا ہے اور باقی دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) دن کے ہوتے ہیں۔
بھادوں پنجابی , بکرمی اور نانک شاہی کیلنڈر کا چھٹا مہینہ ہے جو ساؤن کے بعد آتا ہے اور آٹھویں انگریزی مہینے اگست کی 16 تاریخ سے ستمبر کی 15 تاریخ تک رہتا ہے اور اس مہینے کے 31 دن شمار کیے جاتے ہیں۔

بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں ساؤن اور بھادوں بارشوں کے مہینے ہیں جس میں مُون سُون کی بارشیں ہاڑ یعنی جون اور جولائی کی شدید گرمی کے بعد گرمی کا زور توڑ دیتی ہیں اسی لیے بھادوں کو پنجاب میں اچھے موسم والا مہینہ جسکی گرمی برداشت کے قابل ہوتی ہے تصور کیا جاتا ہے۔
بابا گُرو نانک جو سکھوں کے سب سے بڑے گُرو ہیں اپنی کتاب گُرو گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں کہ "بھادوں بارش کا مہینہ انتہائی خوبصورت مہینہ ہے اور ساؤن اور بھادوں رحمت والے مہینے ہیں جس میں بادل نیچے اُترتا ہے اور تیز بارش برساتا ہے جس سے پانی اور زمین شہد سے بھر جاتے ہیں اورخالق زمین پر گھومتا ہے”۔
"روایات میں ہے کہ پنجابی کے 12 مہینوں کے نام گیاراں بھائیوں (ویساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، اسو، کتک، مگھر، پوہ، ماگھ، پھگن، جیت اور 1 بہن (بھادوں) کے نام پر رکھے گئے یعنی سال کے سارے مہینوں میں بھادوں گیاراں بھائیوں کی اکلوتی اور انتہائی لاڈلی بہن ہے۔"
مزید روایات میں ہے کہ بھادوں جہاں انتہائی لاڈلی اور میٹھی ہے وہاں منہ زور، نک چڑھی، تیکھی اور چُبھنے والی بھی ہے اسی لیے اس مہینے کی گرمی اگر تیز ہوجائے تو انسان پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے، اس مہینے میں ہوا اگر چلتی ہو تو انتہائی سہانہ موسم ہوتا ہے اور ہوا اگر بند ہو جائے تو سانس بھی بند ہو جاتی ہے۔
کہتے ہیں بھادوں اگر برسے تو زمین پر رہنے والی مخلوق چرند، برند، حشرات سبھی اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس دلفریب موسم کے مزے لُوٹتے ہیں اور بھادوں اگر خُشک ہو جائے تو یہ ہر چیز کو خشک کرکے رکھ دیتی ہے اس لیے اس موسم میں رب کائنات سے رحمت کی دُعائیں مانگنی چاہیے تاکہ اس موسم کی سختی سے بچا جا سکے۔

22 بھادوں کی رات کو بھدروں کا تارا طلوع ہو جائے گا۔ دیسی موسمی پیشگوئی کے مطابق 23 بھادوں کے دن سے ہم سردیوں میں داخل ہوجاتے ہیں , کیونکہ بھادوں کی 22 تاریخ کے بعد مکھی مچھر کا خاتمہ ہونا شروع ہوجاتا ہے، اور مویشی پال بھائی مال مویشی سے مکھی مچھر بھگانے کے لئے دھواں نہیں لگاتے۔ 22 بھادوں کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد اسوج (اسوں) کا دیسی مہینہ شروع ہوجاتا ہے اور اسوں میں صبح کے وقت شمال کی طرف سے ہوائیں چلتی ہیں جو کہ نارمل سے قدرے ٹھنڈی ہوتی ہیں اور درجہ حرارت گرانے میں کافی مدد دیتی ہیں۔ بھادوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جیٹھ اور ہاڑ کی شدید گرمی کو ختم کرنے کے بعد جب خُود ختم ہوتی ہے تو اپنے وجود کو کھونے کے ساتھ یہ زمین پر بہار کو جنم دیتی ہے اور موسم کو زمین والوں کے لیے انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے ۔۔۔۔ انشاء ٹھیک 21 دنون بعد ہم سردیوں کے موسم میں داخل ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔

پنجابی , بکرمی اور نانک شاہی کلینڈر کا آغاز 1469 میں بابا گُرو نانک کی پیدائش کے دن سے کیا جاتا ہے ۔۔۔✍️ ❤️

علی زیب کامعروف بنگلہ بالآخر فروخت کردیاگیالاہور کے علاقہ گلبرگ میں علی زیب ھاٶس اداکار محمد علی نے بڑے ارمانوں سے بنوای...
16/08/2024

علی زیب کامعروف بنگلہ بالآخر فروخت کردیاگیا
لاہور کے علاقہ گلبرگ میں علی زیب ھاٶس اداکار محمد علی نے بڑے ارمانوں سے بنوایا تھا۔ یہ دو نامور شوبز شخصیات کی محبت کا تاج محل تھا۔

اس کا شمار کبھی لاھور کے دل کش اور مہنگے گھروں میں ہوتا تھا۔اس میں بچھاقالین محمد علی کو سعودی حکمران شاہ فیصل کی طرف سے دیا گیا تحفہ تھا۔ یہی وہ گھر تھا جہاں دنیا کے پانچ حکمران جن میں صدور کے علاوہ بادشاہ بھی علی زیب کے مہمان بنے تھے۔

شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی، سعودی عرب کے شاہ فیصل، عمان کے سلطان قابوس، فلسطین کے صدر یاسر عرفات اور لیبیا کے معمر قذافی کے قدم بھی اسی گھر نے چومے۔پاکستانی فنکاروں میں محمدعلی اور زیبا کو یہ فوقیت رھی کہ انہوں نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کی میزبانی کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب لاہور میں بھٹو دور میں پہلی اسلامی سربراھی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔

دنیا کے تمام مسلم ممالک کے سربراہ پاکستان تشریف لاٸے ۔یہیں شاہ فیصل نے علی زیب کو قالین کے تحفے کے ساتھ شاھی مہر لگا کر تحریرلکھی کہ جب محمدعلی کا انتقال ھو انہیں جنت البقیع سعودی عرب میں دفنانے کی اجازت ھے۔
یہیں شاہ ایران نے محمد علی کو پہلوی ایوارڈ سے نوازا۔ یہی وہ تاریخی عمارت ھے جہاں ملک کے وزراٸے اعظم ، اعلیٰ حکام اوربڑے بڑے شعراء کرام تشریف لاتے رہے،

مشاعرے بھی ھوٸے۔ھاکی ورلڈ کپ جیتنے پر ٹیم کا جشن بھی اسی تاریخی مقام پر منایا گیا۔کہا جاتا ہےبھٹو جب قید کیے گئے تو جیل میں کھانا علی زیب ھاٶس سے ھی جاتا رہا۔افسوس یہ تاریخی عمارت فروخت کردی گئی۔ یہ بھی لاہور کی بہت سی پرانی عمارتوں کی طرح شکستہ حال ہے اور مٹی میں ملنے کی منتظر
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

31/07/2024

Street like this by CNA featuring Lahore Famous Heera Mandi..

.                                                      میاں میر چھاؤنی۔   🌹L A H O R E🌹                 جمشید جی اینڈ سن...
27/07/2024

. میاں میر چھاؤنی۔
🌹L A H O R E🌹

جمشید جی اینڈ سنز کی دکان لاہور میں تھی۔ یہ پارسی چلہ خاندان کی دکان تھی۔ یہ دکان 1845 میں قائم ہوئی تھی، اس تصویر میں وہ 1945 میں لاہور میں اپنی دکان کے 100 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے تھے، بدقسمتی سے وہ تقسیم ہند کے بعد 1947 میں لاہور چھوڑ کر چلے گئے۔

Jamshedji's and Sons' shop was in Lahore. This was a Parsi Challa family's shop. The shop was established in 1845,in this photo they were celebrating 100 years of their shop in Lahore in 1945. Unfortunately they left Lahore in 1947 after the partition of India.

اس تصویر میں پاکستان کا پہلا ٹیلی ویژن اسٹیشن دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن 1964 میں آیا۔ ملک کا پہلا ٹی وی اسٹیش...
22/07/2024

اس تصویر میں پاکستان کا پہلا ٹیلی ویژن اسٹیشن دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن 1964 میں آیا۔ ملک کا پہلا ٹی وی اسٹیشن لاہور میں ایک چھوٹے سے بنگلے کی عمارت میں واقع تھا۔ اسے جاپان کی نیپون کارپوریشن کے تکنیکی ماہرین اور ٹرینرز کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔

نیپون اور ایک پاکستانی صنعت کار سید واجد علی کے پاس اس منصوبے کے زیادہ تر حصص تھے۔ اس چینل کا نام پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن (پی ٹی وی) تھا اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی اور راولپنڈی میں بھی پائلٹ پروجیکٹ شروع کیے گئے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔۔۔۔
20/07/2024

ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔۔۔۔

مہدی حسن: موٹر مکینک سے شہنشاہ غزل بننے کا سفر   مہدی حسن کا تعلق موسیقی کے کلاونت گھرانے سے تھا۔ وہ ہندوستان کی ریاست ج...
19/07/2024

مہدی حسن: موٹر مکینک سے شہنشاہ غزل بننے کا سفر
مہدی حسن کا تعلق موسیقی کے کلاونت گھرانے سے تھا۔ وہ ہندوستان کی ریاست جے پور کے ایک گاؤں لونا میں 18 جولائی سنہ 1927 کو پیدا ہوئے تھے

مہدی حسن کے والد کا نام عظیم خان تھا اور ان کا تعلق بھی موسیقی کی دنیا سے تھا۔ مہدی حسن جب چھ سال کے ہوئے تو والد عظیم خان نے تان پورہ سُر کر کے دیا اور کہا کہ یہی تمھارا کھلونا، یہی تمہارا مستقبل ہے۔ ننھا مہدی حسن تان پورہ سے راگوں کی شکلیں یاد کرنے لگا۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے حاصل کی۔ مہدی حسن بچپن سے ہی بہت جفا کش اور محنتی تھے۔ آواز اور سانس کی پختگی کے لیے وہ شدید جسمانی کسرت بھی کرتے تھے۔ یہ کسرت ان کی گائیکی کا اساس بنی اور ان کی سریلی آواز مزید نکھر گئی۔

مہدی حسن کے والد اور چچا مہاراجہ بڑودہ کے دربار سے وابستہ تھے۔ انھوں نے انتہائی کم عمری میں مہدی حسن کو اس قابل کر دیا کہ وہ مہاراجہ بڑودہ کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔

مہدی حسن کے فن کو نکھارنے میں ان کے بھائی غلام قادر نے بھی اہم کردار ادا کیا جو لکھنؤ کی موسیقی کی ممتاز درس گاہ کے فارغ التحصیل تھے اور اسی باعث پنڈت کہلاتے تھے۔

پنڈت غلام قادر کو موسیقی کے علاوہ سنسکرت، ہندی اور اردو پر بھی ماہرانہ عبور حاصل تھا۔

قیام پاکستان کے بعد مہدی حسن اور پنڈت غلام قادر لاہور چلے آئے۔ جہاں پہلے انھوں نے فلمی صنعت میں قدم جمانے کی کوشش کی مگر وہاں خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کے باعث وہ چیچہ وطنی چلے گئے جہاں انھیں سائیکلوں کی مرمت کا کام بھی کرنا پڑا۔
پھر انھوں نے سکھر کے ایک ماہر مکینک کشن سے کاروں کو ٹھیک کرنے کا کام سیکھا اور پھر تقریباً تین، ساڑھے تین سو انجن اپنے ہاتھوں سے باندھے۔ مہدی حسن پیٹ پالنے کے لیے گاڑیوں کے مکینک کا کام تو کر رہی رہے تھے مگر موسیقی سے ان کا لگاؤ جنون کی حد تک برقرار تھا۔

اسی زمانے میں انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی میں موسیقی کے پروگراموں کے حصول کے لیے آڈیشن دیا جس کا احوال اوپر گزر چکا ہے۔

اس کے بعد انھیں گاہے بہ گاہے ریڈیو پاکستان بلایا جانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ وہ شادی بیاہ اور ایسی ہی دوسرے پروگراموں میں اپنی گائیکی کا جادو جگانے لگے۔ ان پروگراموں میں وہ زیادہ تر طلعت محمود کے گانے سناتے تھے۔

ایسی ہی شادی کی ایک تقریب تھی جہاں مہدی حسن کی ملاقات ہدایتکار رفیق انور سے ہوئی۔ رفیق انور کو ان کی گائیکی بہت پسند آئی اور انھوں نے مہدی حسن کو اپنی فلم شکار میں گانا گانے کی دعوت دی۔ مہدی حسن نے یہ دعوت فوراً قبول کر لی اور کراچی آ کر چار نغمات کی ریکارڈنگ کروا دی۔

ان چار نغمات میں سے دو مہدی حسن نے تنہا گائے اور دو میں ان کا ساتھ مدھو الماس نے دیا۔ ان نغمات کو حفیظ جالندھری اور یزادنی جالندھری نے لکھا تھا اور ان کی موسیقی اصغر علی حسین نے ترتیب دی تھی۔

مہدی حسن نے فلمی دنیا کے لیے جو پہلا نغمہ ریکارڈ کروایا، اس کے بول تھے ’میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے۔‘

فلم شکار کے تمام گانے بہت مقبول ہوئے مگر فلم کامیاب نہ ہو سکی۔ مہدی حسن کی بطور گلوکار اگلی فلم ’کنواری بیوہ‘ تھی جسے نجم نقوی نے ڈائریکٹ کیا تھا اور یہ اداکارہ شمیم آرا کی اولین فلم تھی۔

اس فلم میں مہدی حسن نے کوثر پروین کے ساتھ دو نغمے ریکارڈ کروائے جن کی موسیقی قادری فرید اور فتح علی خان نے ترتیب دی تھی اور انھیں طفیل ہوشیار پوری نے تحریر کیا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب فلمی موسیقی پر سلیم رضا اور منیر حسین کا راج تھا اور احمد رشدی آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہے تھے۔ ایسے میں سنہ 1962 میں فلم سسرال میں موسیقار حسن لطیف نے منیر نیازی کی غزل ’جس نے مرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں‘ گانے کے لیے مہدی حسن کا انتخاب کیا۔

مہدی حسن اس انتخاب پر پورے اترے اور اس نغمے نے پورے پاکستان میں دھوم مچا دی۔اس عوامی مقبولیت نے مہدی حسن پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے جس کے بعد انھوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

فلمی صنعت کی معرکہ آرائیاں اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ مہدی حسن غزل کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔

سنہ 1964 میں انھوں نے رشید عطرے کی کمپوزیشن میں فلم فرنگی کے لیے فیض احمد فیض کی غزل ’گلوں میں رنگ بھرے’ ریکارڈ کروائی تو غزل گائیکی کو ایک نیا انگ اور آہنگ مل گیا جس نے غزل کو ایک نئی زندگی عطا کر دی۔

اب ایک طرف فلمی دنیا کی مصروفیات تھیں، دوسری طرف غزل کے بڑے بڑے کنسرٹ۔۔۔ مہدی حسن کی آواز ہر فلم کی کامیابی کی ضامن بننے لگی اور غزل کی گائیکی نے انھیں شہنشاہ غزل کے منصب پر فائز کر دیا۔

بالی ووڈ کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر نے جب استاد نیاز حسین شامی کی دھن میں میر تقی میر کی غزل ’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے‘ سنا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔‘

مہدی حسن نے مجموعی طور پر 477 فلموں کے گانے گائے۔ ان کے گائے ہوئے گیتوں کی کُل تعداد 667 ہے۔ مہدی حسن خان صاحب ایک فلم شریک حیات میں پردہ سیمیں پر بھی نظر آئے۔

کئی دہائیوں پر محیط اس سفر میں انھوں نے 25 ہزار سے زائد فلمی و غیر فلمی گیت نغموں اور غزلوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ مہدی حسن کے سروں کی طاقت کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر ضیا محی الدین شو میں خود سنایا تھا۔
بالی ووڈ کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر نے جب استاد نیاز حسین شامی کی دھن میں میر تقی میر کی غزل ’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے‘ سنا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے‘
انھوں نے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ علامہ اقبال روڈ لاہور پر واقع خیابان ہوٹل میں اپنے شاگرد پرویز مہدی کو ریاض کروا رہے تھے کہ تقریباً دس فٹ کے فاصلے پر رکھا ہوا شیشے کا بنا پانی کا جگ اچانک ٹوٹ گیا۔ مہدی حسن نے بتایا کہ پرویز مہدی اور انھوں نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔

بہت غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ دوران ریاض گائے جانے والے راگ کی فریکوئنسی شیشے کے جگ کی فریکوئنسی سے مل گئی تھی جس کی وجہ سے پانی سے بھرا شیشے کا جگ آواز کے ساتھ ٹوٹ گیا تھا۔ یہ مہدی حسن کے سچے سروں کی طاقت تھی۔

مہدی حسن کو ان کی فنی خدمات کی اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز، صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

انھوں نے اپنی بہترین گائیکی پر نو نگار پبلک فلم ایوارڈ اور لاتعداد دیگر ایوارڈ حاصل کیے۔ انڈیا نے انھیں سہگل ایوارڈ اور نیپال کی حکومت نے انھیں گورکھا دکشنا بہوکا ایوارڈ عطا کیا۔

کوئٹہ میں ہونے والے ایک غزل کنسرٹ میں مہدی حسن کو سٹیج پر مدعو کرنے سے پہلے مولانا کوثر نیازی نے ایک شعر پڑھا:

بے ساختہ پکار اٹھی انجمن تمام

فن آپ پر ہے حضرت مہدی حسن تمام

اور ملکہ ترنم نور جہاں نے کہا تھا میں نے تان سین کا صرف نام سنا تھا، ان کو دیکھا مہدی حسن کے روپ میں ہے۔

طویل علالت کے بعد مہدی حسن کا 13 جون 2012 کو کراچی میں انتقال ہوا جہاں وہ نارتھ کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

بی بی سی اردو

پانڈو سٹریٹ کرشن نگر لاہور میں عاشورہ کا منظر یہ 1930 کی تصویر ہے خار دار تاروں باڑوں سے راستے گلیاں کبھی بند نہیں ہوتی ...
18/07/2024

پانڈو سٹریٹ کرشن نگر لاہور میں عاشورہ کا منظر
یہ 1930 کی تصویر ہے
خار دار تاروں باڑوں سے راستے گلیاں کبھی بند نہیں ہوتی تھی
ہندو سکھ مسلمان مل جل کر انسانوں کی طرح رہتے تھے
محرم ہر مذہب کے لیے انتہائی اہم مقام رکھتا تھا سکھ لوگ جو مٹھائیوں کا کاروبار کرتے تھے نوویں اور دسویں محرم کو اپنا کاروبار عقیدت کے طور پر بند رکھتے تھے سنی حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد سبیلیں لگائی کرتی تھی پہلے پہل تو لاہور میں سنی حضرات تعزیہ بھی نکالا کرتے تھے سن 50 کی دہائی میں محرم میں شہنائی پر کلام پیش کیا جاتا تھا اب وہ دور ختم ہو چکا ہے اور شائد کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے گا ۔۔
تحریر ایڈمن ۔۔

وہ کیسی عورتیں تھیںجو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولھا جلاتی تھیںجو سِل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیںصبح سے شام تک مص...
17/07/2024

وہ کیسی عورتیں تھیں
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولھا جلاتی تھیں
جو سِل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کےجھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کردیر تک رسمیں نبھاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

جو اپنی بیٹیوں کو سویٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

جوکلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلا تی تھیں
اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلا تی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ باخوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انھیں ہی ڈھونڈتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں جز دان میں تسبیح دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں

مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ.

شہر لاہور میں ایک شخص کا نام شریف گھیو والا (شریف گھی والا) تھا، جس کا دیسی گھی کا تھوک کا کاروبار تھا۔ شریف گھی والے کی...
16/07/2024

شہر لاہور میں ایک شخص کا نام شریف گھیو والا (شریف گھی والا) تھا، جس کا دیسی گھی کا تھوک کا کاروبار تھا۔ شریف گھی والے کی تین بیٹیاں تھیں جو جوان ہوئیں تو انکے محلے بازار حسن پر بھی گویا شباب آگیا۔

اس کی بڑی بیٹی کا نام فردوس شریف، منجھلی کا نام فاخرہ شریف اور سب سے چھوٹی اور سب سے خوبصورت بچی کا نام بابرہ شریف تھا ۔ تینوں اعلیٰ سوسائٹی میں ایک مقام اور بڑا نام رکھتی تھیں۔

ایک بڑے ادارے کے دل پھینک اور رومان مزاج مالک نے جیٹ نامی ایک واشنگ پاؤڈر کی مشہوری کے لیے بابرہ شریف کو منتخب کیا کہ وہ اس میں ماڈلنگ کرے۔ جیٹ کو اس وقت ایک بڑے برانڈ کے مقابلے میں متعارف کروایا جا رہا تھا۔

اس اشتہار میں دھوم مچانے کے بعد بابرہ شریف کو پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک حقیقتاً شریف ہدایتکار شباب کیرانوی نے اپنی فلم میرا نام ہے محبت میں بطور ہیروئن کاسٹ کر لیا۔ اسی فلم میں ہیرو غلام محی الدین بھی نیا چہرہ تھے۔

اس فلم کے ہٹ ہونے کے بعد بابرہ شریف نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور میاں شریف گھی والے کی اس ہونہار اور خوبصورت بیٹی نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنا شروع کر دیے۔

بابرہ شریف کی چھوٹی بہن فاخرہ شرہف کو بھی شباب کیرانوی نے ایک فلم "انسان اور آدمی" میں رول دیا مگر فاخرہ پردہ سکرین پر کامیاب نہ ہو سکیں اور ایک ہی فلم میں آنے کے بعد واپس اپنے گھر جا بیٹھیں۔ ان کا گھر اس وقت لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں تھا جب نہ ڈیفنس تھا اور نہ ہی بحریہ ٹاؤن۔ اب یہ گھرانا بابرہ شریف کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔

فلمی ہیروئنوں کو زوال بھی آتا ہے۔ کسی کا متبادل اس سے بھی خوبصورت چہرہ آجاتا ہے۔ کوئی سیٹ پر دیر سے آنے اور فلمساز و دیگر عملی کو تنگ کرنے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہو جاتی ہے اور کسی کی جیسے ہی کوئی فلم فلاپ ہو جائے تو قسمت بھی اس سے روٹھ جاتی ہے۔

مگر بابرہ شریف سے کوئی ایک غلطی بھی نہ ہوئی۔ اس نے مشہور اینکر کامران شاہد کے والد فلم سٹار شاہد سے شادی کر لی۔ اس وقت کہا یہ جاتا تھا کہ لاہور میں دو ہی خوبصورت اور وجیہ مرد رہتے ہیں۔

ایک فلم سٹار شاہد اور دوسرے گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر، اور یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی۔ بابرہ شریف وقت کی بڑی پابند تھیں کبھی دیر سے فلم کے سیٹ پر نہ آتیں، فلمساز سے تعاون کرتیں، ان کے ری ٹیک کم سے کم ہوتے، خوش اخلاق بھی بلا کی تھیں۔ پھر اس پر مستزاد حسن اور جوانی عروج پر تھے۔

عمر بھی اتنی نہ تھی مگر پھر بھی اسے زوال نے آ لیا۔ زوال بھی ایسا کہ گھر سے تو وہ نکل نہ سکتی تھی اخبارات اور فلمی رسالوں وغیرہ میں آنا یا انٹرویو کے لیے کسی سے ملنا بھی ختم ہو گیا۔

بابرہ شریف آج بھی اپنے ایم ایم عالم روڈ گلبرگ والے گھر میں گزرے شاندار وقتوں کی یاد میں کھوئی رہتی ہیں اور پالتو جانوروں اور پرندوں کے ساتھ وقت گزارتے اور ان کے ساتھ کھیلتے نہ جانے مقدر سے کیا کیا گلے شکوے کرتی رہتی ہیں

شطرنج کا سلطان! شطرنج مقبول ترین دماغی کھیلوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہے. سچ پوچھیں تو اس کھیل کی قدر مجھے انگلینڈ  آنے ...
15/07/2024

شطرنج کا سلطان!
شطرنج مقبول ترین دماغی کھیلوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہے. سچ پوچھیں تو اس کھیل کی قدر مجھے انگلینڈ آنے کے بعد سمجھ آئی ، جب لندن کے کاٹھے گوروں والے رائل آٹوموبیل کلب میں برطانوی رؤساء کو شطرنج پر فدا ہوتے دیکھا. یہیں پہلی مرتبہ روسی شطرنج جینیس گیری کیسپروف سے ملاقات ہوئی جو انسانی تاریخ کا ذہین ترین شخص سمجھا جاتا ہے. کیسپروف وہ شخص ہے جس نے 1996 میں سپر کمپیوٹر کو مقابلے میں شکست دی تھی.

ایک پکے رنگ کا شخص تقریباً دو درجن سوٹڈ بوٹڈ گوروں کے ساتھ شطرنج کھیل رہا تھا. گورے میزوں ہر شطرنج بچھائے بیٹھے تھے اور وہ درمیان میں اپنی کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا بڑی کمال محویت سے بازی کھیل رہا تھا. معلوم ہوا پکے رنگ کا یہ شخص وادی سون سکیسر کا سلطان خان ہے جو کہ دو درجن ٹاپ برطانوی کھلاڑیوں کے ساتھ اکیلا شطرنج کھیل رہا تھا. سلطان خان نے 1931 میں ان سب لوگوں کو شطرنج کے میدان میں، تن تنہا شکست دے دی تھی".

سلطان خان، سرگودھا کے علاقے مٹھہ ٹوانہ میں پیدا ہوا تھا. اس کا باپ نظام الدین مقامی مسجد کا امام تھا اور ساتھ ہی کلاسیکی ہندوستانی شطرنج کا کھلاڑی بھی تھا. سلطان خان کے نو بہن بھائی تھے. بچپن میں جب سلطان نے اپنے باپ سے شطرنج سیکھنے کی فرمائش کی تو الٹا پٹائی ہوئی اور اسے کہا گیا کوئی ڈھنگ کا کام کرو.

سلطان نے چوری چھپے شطرنج کھیلنی شروع کردی تو وہ سرگودھا بلکہ برصغیر کے سب سے بڑے جاگیر دار اور رئیس سر عمر حیات خان ٹوانہ کی نظر میں آگیا.

عمر ٹوانہ شہنشاہ جارج پنجم کا اے ڈی سی بھی تھا جس نے دو سال سلطان کو کھیل کی تربیت دلوائی. 1926 میں وہ آل انڈیا چیمپئن بن چکا تھا. عمر ٹوانہ اسے ایک ٹرافی کے طور پر لندن کے امپیریل چیس کلب میں لے کر آیا.

1929 میں مٹھہ ٹوانہ کا سلطان خان برٹش چیمپئن بن چکا تھا اور یہ وقت تھا جب سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا.

میں نے جب سلطان خان پر پڑھنا شروع کیا تو دنگ رہ گیا. وہ عمر ٹوانہ کا ایک مزارع تھا جو چٹا ان پڑھ تھا اور اسے انگریزی بولنی بھی نہیں آتی تھی مگر وہ اپنے وقت کی معلوم دنیا میں سب سے مشکل ترین کھیل کا سب سے بڑا کھلاڑی تھا. اس نے بمشکل ایک دو سال انگریزی شطرنج سیکھی جو کلاسیکی ہندوستانی شطرنج سے مختلف تھی.

گورے جو ہندوستانیوں کو غلام اور کمتر سمجھتے تھے وہ دانتوں میں انگلیاں دبائے اس کا کھیل دیکھتے تھے. 1931 میں اس نے دنیا کا سب سے بڑا چیلنج قبول کرتے ہوئے بیک وقت شطرنج کے چوٹی کے 33 کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ساتھ میچ کھیلا، 26 گیمز جیتے، 4 برابر کیے اور تین ہارے .
1930 میں سلطان خان نے سلطنت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے چیس کے ورلڈ چیمپئن ہوزے کاپابلانکا کو شکست دے دی.

سلطان خان نے لندن میں ایک تہلکہ مچا دیا. ایک ہندوستانی جو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے ذہین ترین لوگوں ہر بھاری تھا. کچھ چوٹی کے امریکی کھلاڑی اس سے ملنے کے لیے گئے تو ان کی ملاقات عمر ٹوانہ سے ہوئی جو کافی دیر تک ان کے سامنے اپنے گرے ہاؤنڈ کتوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور اپنی امارت کے بارے میں ہانکتا رہا.

"تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں تم سے مل رہا ہوں ورنہ شام کا یہ وقت میں صرف اپنے کتوں کے ساتھ گزارتا ہوں". کھلاڑی یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ جس شخص کا انٹرویو کرنے آئے تھے وہی ان کے لیے چائے بنا کر لایا تھا. دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سےایک عمر ٹوانہ کا محض ایک چاکر تھا.

میں نے درجنوں گورے صحافیوں کی سلطان خان پر تحریریں پڑھیں. بار بار یہی پڑھنے میں آیا کہ وہ انگلش کے دوچار الفاظ ہی بول سکتا تھا. سلطان خان لمبوترے چہرے والا، پکے رنگ کا شخص تھا. چہرہ پوکر فیس تھا یعنی جذبات سے بالکل عاری...

جب وہ شطرنج کھیلتا تھا تو لگتا تھا کہ دنیا میں اور کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے. بس صرف اس کے جبڑے کی ہڈی ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی. سلطان خان برطانیہ میں 1929 سے لے کر 1934 تک موجود رہا اور اس دوران لندن کے موسم سے شدید تنگ رہا کیونکہ اسے مسلسل زکام رہنے لگا تھا. پانچ سال وہ سلطنت برطانیہ میں شطرنج کا سب سے بڑا کھلاڑی رہا. عمر ٹوانہ ہندوستان واپس جاتے ہوئے سلطان خان کو ساتھ لے گیا اور پھر کسی نے سلطان خان کا نام نہ سنا.

1944 میں سلطان خان نے تب کے وائسرائے ہند کے ساتھ میچ کھیلا اور اسے شکست دے دی. اسی وقت کے آس پاس عمر حیات ٹوانہ کا انتقال ہوگیا اور سلطان خان نے واپس مٹھہ ٹوانہ جا کر اپنی زمینوں پر کاشتکاری شروع کردی.

سلطان خان 63 برس کی عمر میں ٹی بی کی وجہ سے خون تھوکتے ہوئے رب سے جاملا. اس نے اپنے کسی بھی بچے کو شطرنج نہیں سکھائی کیوں کہ وہ انہیں کہتا تھا "تم زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کرنا سیکھو". میر سلطان خان کا بیٹا اطہر سلطان بعد میں آئی جی پولیس پنجاب کے عہدے تک پہنچا.سلطان خان کی ہوتی عطیہ سلطان نے کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی بے.

میر سلطان خان آج بھی شطرنج کے کھیل کے لیجنڈ کے طور پر پہچانا جاتا ہے. اپنے وقت کے سب سے بڑے رئیس سر عمر حیات ٹوانہ کے بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا لیکن سلطان خان کے بارے میں ابھی بھی کتابیں چھپتی ہیں اور لکھے والے اس نابغہ روزگار شخص کے بارے میں سوچتے ہیں جس نے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا. ایک چٹا ان پڑھ کاشتکار جو اپنے سکور کی گنتی بھی پنجابی میں لکھتا تھا اور اپنے مخالف کو تیز عقابی نظروں سے دیکھتا رہتا تھا. جب اس سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہیں کون سی زبان بولنی آتی ہے تو وہ کندھے اچکا کر ایک لفظ کہتا تھا "چیس".

واقعی پوری دنیا میں یہ زبان اس سے بہتر بولنے والا کوئی نہیں تھا.

میرے لیے میر سلطان خان بھی ایک ہیرو سے کم نہیں،جس نے غلام ہندوستان کا ایک "تھرڈ کلاس" باشندہ ہوتے ہوئے وائسرائے ہند سے لے کر دنیا کے بہترین دماغوں کو شطرنج کے میدان میں چت کردیا تھا اور پاکستان کے قیام سے پہلے ہی ثابت کردیا تھا کہ "پاکستانی" دماغ دنیا میں کسی سے کم نہیں ہے.
مرسلہ : شیخ ابوالقاسم

Address

Lahore
54000

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00
Sunday 09:00 - 17:00

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Adil Lahorei Cultural Club posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Adil Lahorei Cultural Club:

Videos

Share

Category

Our Story

Pakistan inherits a rich culture of Great Mughal have left behind in shape of buildings, gardens and monuments. Today even these are of great attraction for the people, especially the young generation. These youngsters and even the foreigners visiting Pakistan have great attraction for Lahore. LAHORE seeing rules of many dynasties still holds great treasures within itself. As the time wades the old culture still there are steps to be followed and enjoyed. Like touring the WALLED CITY OF LAHORE, in TANGAS. This was once a Royal mean of transport, that even the British Rule enjoyed moving about in Tangas. Being an ancient mean of moving nowadays have become an enjoyable mean of excursion. Adil Lahorei as his name is pure Lahore born and brought up in this historical city, well knows the magic hidden in these places. Being a son of the Lahore's soil Adil holds a good grip over the historical places as he has visited these places number of times, gathered all stories from the seniors living in those areas, these stories traveled from heart to heart & generation to generation. This was a real treasure that Adil Lahorei decided to create interest to explore the historical city of Lahore and share it with the new young generation as they must be aware of this Royal City of Lahore. Means of transport are many in the world but horse has been an ancient and easy mean of travelling. Since the very beginning people used just horses to travel far & wide for trading and even in wars. But horse is a peaceful animal who love to be treated with soft feelings and love. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB stands as a milestone in exploring the hidden treasure of historical city, LAHORE. Adopting horse carrying seems to be real attraction for the youngsters. Tonga Tour is a weekly activity which is organized by ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB. People really enjoy exploring the WALLED CITY with Adil. Starting at early morning and with whole day's plan carries tour to KAMRAN'S BARA DARI at Ravi, Jehangir's Tomb across the Ravi at Shahdra, the gates of lahore then while enjoying the tonga ride all visit the Lahore Fort, which carries history of many invaders in Lahore. Each ruler have their strong roots deeply en-planted around the great fort. These tours are not only for natives rather they capture the height of interest & attraction of foreigners. As we have rich culture & history to share. Being a source of attraction for the people from far & wide sub- continent always have been of great attraction. The rulers left behind a lot more for the generations to enjoy and know about the culture the kings and queens were living in. If Lahore Fort tells us about the different rulers of Lahore (Indo- Pak), the Shalimar Garden and Jehangir's Tomb also show us that even after their death they have same royal status. No matter these are places where today people love going for family picnics and enjoyment. One can feel the air of those royalties living around. ADIL LAHOREI CULTURE CLUB holds a sound grip over the history of Lahore and it's surroundings. As well as the mysteries of the city dwelling within the WALLED CITY of Lahore. During the grand past Lahore was just surrounded by walls and had 12 gates to the entry, which were guarded by the royal guards. As the time passed by the city developed and Lahore is now expanded from all edges. Nowadays hardly anyone knows even the names of those 12 gates. 1. Lahori Gate 2. Delhi Gate, 3. Sheranwalan Gate, 4. Mochi Gate, 5. Masti Gate, 6. Shah Alam Gate, 7. Bhatti Gate, 8. Roshnai Gate, 9. Taxali Gate, 10. Akabari Gate, 11. Mori gate 12. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB also conduct different activities to present the Punjab's culture by promoting in different phases. Dramas, cultural activities like as food and dress show are also conducted by them. Our Cultural Activities 1- Tonga Tour walled city of lahore 2- Cultural walk for the formation and Restoration of Culture 3- To get the chance for youth 4- To perform in Mega event in our special and traditional dresses Membership is available on very minimum amount to join them and know about their activities. #ALCC team Adil Lahorei CEO ALCC Nida Nasir : Manager ALCC Nouman Nasir : Official Photographer ALCC Ali / Usman / Nouman / Ozair : Event organizer Muhammad Ali : Media Manager Official Photographer

Nearby travel agencies


Other Tour Guides in Lahore

Show All