13/04/2024
کاپی انعام اللہ سر
وادی نیلم کی مختصر سیر
ایک ماہ قبل میرے مہربان دوست Abdul Khaliq Hamdard صاحب نے اپنے آبائی گاوں پھولاوئی کا دورہ کیا تھا جو وادی نیلم کے آخری حصے میں واقع ایک خوبصورت گاوں ہے۔ چونکہ ہمدردد صاحب اب مستقل طور پر اسلام آباد مقیم ہیں اس لیے اپنے ہی علاقے کا سفرنامہ ایک سیاح کی طرح لکھا تھا جو ان کی دیگر تحریروں کی طرح نہایت دلچسپ تھا۔ اس سے ہمیں وادی نیلم کو دیکھنے کی تحریک ملی جو پہلے سے ہماری وش لسٹ میں شامل تھی۔
ہمارے پانچ آدمیوں کے گروپ میں میرے علاوہ چھوٹا بھائی Rahim Ullah، عم زاد Javed Iqbal، برادر Bakht Amin Karimi اور برخوردار Altaf Hussain جس نے اپنی گاڑی اس سفر کے لیے پیش کی شامل تھے۔ گاڑی چلانے کی ذمہ داری زیادہ تر رحیم اللہ نے ادا کی اور بہت خوب ادا کی۔ اس کی مدد کے لیے وقفے وقفے سے بخت آمین صاحب بھی پیچھے نہ رہے ۔ بخت آمین صاحب اکثر میرے بارےمیں فخر سے کہتے ہیں کہ انہیں پہلی بار ملک سے باہر سیر کے لیے نکالنے کا کا رنامہ ان کا تھا۔ سن 2000 میں براستہ کوئٹہ/تفتان ایران کی یادگار سیر ہم نے ایک ساتھ کی تھی۔ اب اس کا بدلہ اتارتے اتارتےموصوف کو آدھے سے زیادہ پاکستان دکھا چکا ہوں لیکن ان کی تسلی پھر بھی نہیں ہوتی۔
ہم صبح سات بجے بحرین سوات سے نکلے اور براستہ خوازہ خیلہ، الپوری بشام پہنچے۔ الطاف کے لیے ضلع شانگلہ بھی نئی چیز تھی۔ وہ پہلی بار یہ علاقہ دیکھ رہے تھے۔ ہم نے راستے میں پشتو کے مشہور شاعر حافظ الپوری کے مزار پر بھی حاضری دی۔ حافظ صاحب کا یہ شعر زبان ذد عام ہے کہ :
باز پہ جالہ کے چا نہ دے پیژندلے
قدر نشتہ د حافظ پہ الپورئ کے
الپوری ضلع شانگلہ کا صدرمقام ہے۔ پورا ضلع خوبصورت وادیوں پر مشتمل ہرا بھرا علاقہ ہے۔ الپوری سے آگے ایک گاوں آتا ہے 'بیلے بابا'۔ یہاں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں گاڑیوں میں ہرطرف مخصوص قسم کی جیپیں نظر آئیں گی۔ یہ چھوٹی جیپ پہاڑی دروں کے لیے بہت موزون ہوگی لیکن کیا صرف ایک گاوں کے لوگوں کو اس کا پتہ ہے؟ اس سے ملتا جلتا مشاہدہ ہمارے سوات کے بانڈیگان میں بھی ہے جہاں ہرطرف سوزوکی کیری گاڑیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
بشام میں مختصر ناشتے کے بعد ہم نے پھر اپنا سفر جاری رکھا اور جگہ جگہ رک کر تھاکوٹ کے راستے آگے بڑھتے رہے۔ جمعہ چھترپلین میں پڑھا ۔ اس علاقے کی خوبصورتی کو سب نے پسند کیا۔ اب ہمیں بھوک ستانے لگی لیکن کسی نے بتایا کہ شینکیاری میں "نیما کبابی" کے کباب بہت مشہور ہیں۔ کباب واقعی اچھے تھے۔ ہم شارٹ کٹ کی لالچ میں عطرشیشہ کے راستے بٹراسی اور گھڑی حبیب اللہ پہنچ تو گئے لیکن خاصی دیر سے۔ میں 2005 کے زلزلے کے موقع پر کچھ دوستوں کے ساتھ اسی راستے مظفرآباد گیا تھا۔ یہ پیارا شہر ہم نے اس وقت پہلی دفعہ دیکھا لیکن بد قسمتی سے نہایت شکستہ حالت میں دیکھا۔ اب پہاڑ سے نیچے اترتے ہوئے بہت پیارا لگا۔ رات ہم نے ایک ہوٹل میں گزار کر صبح "شاردا" کی طرف روانہ ہوگئے۔
نیلم وادی قدری حسن کا ایک نمونہ ہے۔ اس کے بعض مناظر داد سے بالا ہیں۔ ہم جگہ جگہ رک کر اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے عصر کے وقت شاردہ پہنچے۔ یہاں میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر خواجہ عبدالرحمن صاحب نے اپنے ایک عزیز کو ہمارے بارے میں اطلاع دی تھی جو مقامی کالج کے پرنسپل ہیں۔ انہوں نے کمال مہربانی سے ہمارے لیے اپنے کالج میں رہنے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔
وادی کے بارے میں اپنے اور دیگر ساتھیوں کے تاثرات ایک اور پوسٹ میں لکھوں گا لیکن عمومی معلومات جو ہمدرد صاحب نے اپنے سفرنامچے میں لکھے ہیں ان تمام دوستوں کے لیے بڑے کارآمد ہونگے جو اس وادی کی سیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے معمولی قطع و برید کے بعد میں عبدالخالق ہمدرد صاحب کی تحریر یہاں نقل کروں گا۔
"وادیء نیلم پہلے ضلع مظفر آباد کا حصہ تھی۔ اب ‘چلہانہ’ سے آگے اس کو ایک الگ ضلع بنا دیا گیا۔ اس کی دو تحصیلیں ہیں: اٹھمقام اور شاردہ۔ یہ وادی مظفر آباد سے شروع اور ‘تاؤبٹ’ پر ختم ہوتی ہے۔ اس کی لمبائی کوئی 250 کلو میٹر ہے۔ اٹھمقام تک سڑک اچھی، وہاں سے کیل تک کچی پکی اور وہاں سے تاؤبٹ تک بالکل کچی ہے۔ اس لئے کیل تک آپ کسی بھی گاڑی پر سفر کر سکتے ہیں لیکن وہاں سے آگے فور بائی فور گاڑی پر سفر اچھا رہتا ہے اگرچہ لوگ مہران کو بھی تاؤبٹ تک لے جاتے ہیں۔
اس وادی کے قدرتی حسن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دیکھنے بلکہ بار بار دیکھنے کی چیز ہے۔
یہاں کے حسن کے تین بنیادی اجزاء ہیں۔ دریائے نیلم جو پوری وادی میں بہتا ہے۔ اگر بارشیں اور سیلاب نہ ہو تو بالائی علاقوں میں اس کا پانی دور سے نیلا اور شفاف نظر آتا ہے۔ جگہ جگہ اس کے معاون دریا اور نالے اس میں ملتے رہتے ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے کئی نالے بھی شامل ہیں۔ دوسرا عنصر سدا بہار جنگلات ہیں جن کو دیکھ کر دماغ میں ایک طراوٹ محسوس ہوتی ہے۔ تیسرا عنصر فلک بوس اور سرسبز پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ اگر ایک ہی منظر میں نیلم، جنگل اور برفپوش پہاڑ یکجا ہو جائیں تو اس منظر کی خوبصورتی کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کا طرز تعمیر بھی ایک اہم چیز ہے۔ دور سے چوبی مکانات بہت اچھے اور بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اب نئے مکانات میں بیت الخلاء کو بھی بطور ضرورت مکان میں شامل کیا جا رہا ہے جبکہ پرانے مکانات میں غسل خانہ تو ہوتا تھا مگر بیت الخلاء نہیں ہوتا تھا۔
وادیء نیلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ دوران سفر آپ کو ہر بازار میں کھانا اور رہائش مل سکتی ہے۔ ہم نے جب گھر سے پہلا سفر کیا تو کھانے اور چارپائی کے پیسے بیس روپے سے کم ہی ہوتے تھے مگر اب چیزیں مہنگی ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی نرخ مناسب ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ اسلام آباد می چائے کا ایک پیالہ پچیس روپے کا ہے اور اسی نرخ پر میں نے ‘لوات’ میں بھی پی۔
وادیء نیلم کا ہر مقام ہی خوبصورت ہے مگر اٹھمقام، کیرن، نیلم، دودھنیال، خواجہ سیری، شاردہ، کیل، جانوئی، پھولاوئی اور سرداری سے تاؤبٹ تک سارے گاؤں بہت خوبصورت ہیں۔ جو گاؤں میدانی اور لب دریا ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ پھولاوئی گریس یونین کونسل کا ایک بڑا گاؤں ہے لیکن سڑک سے اس کا کچھ حصہ نظر آتا ہے۔ اس لئے عموماً سیاح اس کو بھول جاتے ہیں۔
اس وادی میں عام فصلوں کے علاوہ سیب، ناشپاتی، خوبانی، آلوچہ، آلو بخارا، آڑو اور آخروٹ جیسے پھل بھی ہوتے ہیں لیکن ان کا موسم جولائی کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اٹھمقام اور گردونواح کی دیسی ناشپاتی کمال کی ہوتی ہے۔ کیرن میں پہلے سیب کے بڑے اچھے باغات تھے لیکن اب ان کی جگہ ہوٹلوں نے لے لی ہے۔
وادیء نیلم میں پانچ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اول ہندکو، دوم کشمیری، سوم گوجری، چہارم شنیا اور پنجم پشتو۔ ہندکو اور اردو رابطے کی زبانیں ہیں اور باقی مقامی۔ (وادی نیلم سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست ڈاکٹر خواجہ عبدالرحمن نے پہلی بار اس وادی کے علاقہ کنڈل شاہی میں ایک ایسی زبان کی نشاندہی کی جو دنیا کی زبانوں میں شامل نہیں تھی۔ یہ بہت کم افراد بولتے ہیں۔ اس زبان کا نام بھی کنڈل شاہی ہے--انعام) پھولاوئی میں ٹھیٹھ شنیا بولی جاتی ہے جبکہ تاؤبٹ اور کریم آباد (سوتی) میں شنیا کا گریزی لہجہ بولا جاتا ہے۔ ڈھکی چکناڑ (مچھل) کے لوگ پشتو بولتے ہیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ لوگ پہلے مچھل سیکٹر میں خط متارکہء جنگ کے بالکل قریب رہتے تھے مگر بھارتی گولہ باری سے تنگ آ کر اب ‘جام گڑھ’ میں فروکش ہو گئے ہیں۔
یہاں کے لوگ عام طور پر دیندار، مہمان نواز اور نرم مزاج ہیں۔ پہلے تو باہر سے آنے والے لوگوں سے بڑا اچھا سلوک کرتے تھے لیکن اب ‘گیسٹ ہاؤس کلچر’ کے عام ہوگیا ہے۔
وادیء نیلم قدرتی اور فطری حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود ایک وقت تک سیاحوں کی نگاہوں سے اس لئے پوشیدہ رہی کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کی وجہ سے یہ بھارتی گولہ باری کی زد میں رہی اور 1992 سے 2003 تک یہاں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر رہے۔"