15/03/2024
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ہے؟
جواب ملا...
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ہے.
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ دراصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے.
(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استعمال کرتے تھے.
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے.
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے.
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے.
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے.
اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا.
گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے.
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے.
مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ہے.
آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں.
ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی.
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ہے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل، کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا...
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے...
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے...
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ہے میں
غریب ہوں.
آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ہے.
ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.🌿💫
Online Quran Tutor 🌿💫