16/05/2024
آپ نے یہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ آج سے کچھ عرصہ قبل شہروں میں چڑیا، مینا اور دوسرے پرندے بکثرت پائے جاتے تھے۔ یہ پرندے انسانوں کے ساتھ رہنا سیکھ چکے ہیں اور انسانی آبادی کے بڑھنے سے ان کی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ یہ عموماً رہائشی علاقوں سے ہی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔
لیکن کچھ سالوں سے ان پرندوں کی تعداد بہت کم ہورہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ فور جی اور فائیو جی انٹرنیٹ کی آمد ہے کیونکہ اس کی فریکوینسی ان ننھے پرندوں کے دماغ پر برا اثر ڈالتی ہے۔ لیکن میں آج آپ کو اس کی ایک اور وجہ بتانا چاہتا ہوں اور وہ کیمیکل ڈور کا استعمال ہے۔ پتنگ اڑانے کیلئے کیمیکل ڈور کا استعمال حالیہ سالوں میں بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ چڑیاں اور مینا وغیرہ کیمیکل ڈور کے ٹکڑوں کو تنکوں کی جگہ اپنا گھونسلہ بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ڈور گھونسلوں کے اندر ان کے بچوں کے پائوں سے لپٹ جاتی ہے اور ان کی ٹانگوں میں اس قدر الجھ جاتی ہے کہ ان کے ٹانگ کے ایک حصے کو خون کی سپلائی ختم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ٹانگ ناکارہ ہوجاتی ہے اور اس طرح کا بچہ گھونسلے سے باہر نکلنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ گھاس پھوس کے تنکے چونکہ نرم ہوتے ہیں اس لئے وہ پرندوں کے بچوں کی ٹانگوں میں بالکل نہیں پھنستے۔ پرندے چونکہ ڈور کو تنکوں کا متبادل سمجھتے ہیں اس لئے وہ مسلسل اس چیز کا شکار ہورہے ہیں اور اس طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا۔ میں خود اس طرح کے ان گنت کیسز کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔
کیمیکل ڈور نہ صرف انسانی جانوں کیلئے خطرناک ہے بلکہ یہ پرندوں کے بچوں کے علاؤہ بڑے پرندوں کو بھی اڑتے ہوئے زخمی کرتی ہے۔ اس لئے اگر آپ اپنے ارد گرد پرندوں کی چہچہاہٹ سننا چاہتے ہیں تو کیمیکل ڈور کا بائیکاٹ کریں ۔
#ڈاکٹرنثاراحم
ملائکہ بخاری