03/07/2024
آپ اگر موٹر وے ایم ٹو پر اسلام آباد کی طرف سے لاھور آئیں تو ٹول پلازہ پہ ایک درجن سے زیادہ بوتھ ہیں ، ہر بوتھ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک منٹ میں چھ گاڑیاں گذرتی ہیں ،اور یہی ایک بوتھ ایک گھنٹے میں 360 گاڑیوں کی گذر گاہ ھے ،، اسی طرح بارہ عدد بوتھ سے 4320 گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں ،اور چوبیس گھنٹوں میں 103680 گاڑیاں گذرتی ہیں ، اسلام آباد سے لاھور تک ایک کار کا ٹیکس 1000 ہزار روپے ہے اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا چار پانچ ہزار تک یہ ٹیکس چلا جاتا ھے ،، ھم اگر ایوریج ایک گاڑی کا ٹیکس صرف 1000 ہزار بھی لگائیں ، تو اس حساب سے 24 گھنٹوں میں یہ پلازہ کم از کم ساڑھے دس کروڑ روپے جنریٹ کرتا ھے ، اسی طرح ملک بھر کے موٹر ویز اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعد گن لیں اور پھر ان کو کروڑوں سے ضرب دیں تو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ھو جاتے ہیں ۔
آپ جس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ، اس میں پٹرول کی مد میں کم از کم ایک لٹر پر پچاس روپے ٹیکس کاٹا جا رہا ھے ، آپ حساب کریں کہ روزانہ لاکھوں گیلن کے حساب سے جو پٹرول ڈیزل کنزیوم ھو رہا ھے ، اس کا ٹیکس بھی روزانہ اربوں روپوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جا رہا ھے ۔
آپ جس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ، اس کو جب خریدا جاتا ھے ، تو تو جتنی گاڑی کی قیمت ھوتی ھے ، اتنا ہی اس پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھرنی پڑتی ھے ۔
آپ جس گاڑی کو اپنے پاس رکھتے ہیں ، اس کی سالانہ ایکسائز ڈیوٹی بھی اربوں میں جمع ھوتی ھے ۔
آپ کی بجلی کا بل اگر دس ہزار روپے ہے ،تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا سات ہزار روپے ٹیکس ھے ،جو ماہانہ ہر کنزیومر سے کاٹا جاتا ھے اور اربوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جمع ھوتا ھے ۔
اسی طرح گیس کے بل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگ رہا ھے ،اور خزانے میں جمع ھو رہا ھے ۔
آپ ایک میڈیکل سٹور سے تین سو روپوں کی دوائی خرید رہے ہیں ، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پر تقریبآ چالیس سے پچاس روپے تک سیلز ٹیکس ھے ،جو کہ خزانے میں جا رہا ھے ۔
آپ ھوٹل میں کھانا کھا رہے ہیں اور آپ کا پانچ ہزار بل آگیا ھے ، تو اس پر تقریبآ پانچ سو کے قریب آپ سے ٹیکس کاٹا جائے گا ۔
آپ اپنے مکان کا نقشہ پاس کروا رہے ہیں ، اور آپ کسی بھی ڈویلپمنٹ ادارے کے دفتر جائیں ،تو لوگوں کی قطاریں لگیں ھوئی ھونگی ، جن سے چالیس سے پچاپچاس ہزار روپے فی نقشہ فیس جمع کی جائے گی ۔ یہ بھی خزانے میں جمع ھوتا ھے ۔
آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں ، اس گھر کا سالانہ ٹیکس آپ نے خزانے میں الگ سے جمع کروانا ھوگا ۔
آپ گھر کے لئے خوراکی مواد یا گراسری کی خریداری کر رہے ہیں ، اس پہ بھی آپ نے ٹیکس دینا ھوگا ۔
آپ پڑھ رہے ہیں ،اور اپنے لئے کتابیں کاپیاں اور سٹیشنری خرید رہے ہیں ،اور پر بھی آپ ٹیکس دے رہے ہیں ۔
آپ کسی سیاحتی ٹور پہ جا رہے ہیں ،تو کئی جگہوں پر ناکے لگے ھوتے ہیں ،اور ٹی ایم اے کے نام پر آپ سے ٹیکس لیا جاتا ھے ۔
آپ بنک میں اپنے پیسے جمع کرتے ہیں یا نکالتے ہیں ، اس پر آپ نے ٹیکس دینا ھوگا ، اور آپ جتنی مرتبہ بھی ایک ہی رقم نکالتے اور جمع کرتے رہیں گے ،اپ اس پر ٹیکس دیتے رہیں گے ۔
حتیٰ کہ آپ مر گئے ، تو آپ کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے بھی آپ کے عزیز و اقارب کو ٹیکس دے کر سرٹیفیکیٹ لینا پڑے گا ۔
اس کے علاؤہ حکومت کے پاس ایسے بے شمار اثاثے ہیں ،جنہیں بیچ کر اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جا رہے ہیں ، جیسا کے پچھلے دنوں اسلام آباد کے بلیو ایریا میں سی ڈی نے اپنا چند کنال کا پلاٹ آٹھ ارب روپے کا بیچ دیا ،یہ نہ پہلا پلاٹ تھا اور نہ آخری ھے ۔
میں نہیں سمجھتا ،کہ میرے پاس اگر چند مرلے کا کمرشل پلاٹ ھوتا ھے ، تو اس ایک پلاٹ سے میری زندگی شاندار گذرتی ھے ، بلکہ میرے آنے والی نسل بھی اس سے بھر پور استفادہ کرتی ھے ۔
میرے پاس اگر چھوٹا سا کارخانہ ھو تو ھماری اگلی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں ۔
ایک ٹرانسپورٹر کے پاس ایک آدھ بس یا ٹرک ھوتا ھے ،تو اس کی پوری فیملی کی کفالت اس سے ھوتی ھے ۔
مگر سوال یہ ھے کہ جس ملک میں اربوں کھربوں کے ٹیکس روزانہ کی سطح پر اکھٹے ھو رہے ہیں ،وہ کیوں مفلوک الحال ھے ، اور دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا ہے