Pak Virsa پاک ورثہ

Pak Virsa  پاک ورثہ Heritage &
Tourists
(7)

چاروں ماچھیکنب چشمہ و آبشارماچھیل گاج خضدار بلوچستان کوڑی سے کوٸی 50 کلومیٹر سنگلاخ چٹانوں میں ایک جنت نظیر نظارہ جو کسی...
09/12/2023

چاروں ماچھی
کنب چشمہ و آبشار
ماچھیل گاج خضدار بلوچستان
کوڑی سے کوٸی 50 کلومیٹر سنگلاخ چٹانوں میں ایک جنت نظیر نظارہ جو کسی جادوٸی دنیا سے کم نہیں بلند و بالا سخت چٹانوں کے بیچ بہتا یہ ٹھنڈا چشمہ جو نیلے رنگ کا ہے گاج کے پہ واقع ہے اور یہاں اطراف میں کجھور کے درخت اور پانی کی آواز پرندوں کا شور اور انتہاٸی گہری خاموشی سحر انگیز ہے کسی الف لیلوی داستان کا منظر ہے آپ یہاں پہنچ کر ایسا محسوس کرتے ہیں گویا آپ کسی جادوٸی کہانی کا مرکزی کردار ہیں جو کسی ظالم دیو سے کسی پریوں جیسی شہزادی کو آزاد کروانے آۓ ہیں
یاد رہے چارو ماچھی بلوچستان اور سندھ کی سرحد پہ واقع ہے اس علاقے کے نام میں بھی بڑی دلچسپی ہے چاروں ماچھی اصل میں سندھی زبان کا لفظ ہے چارو کا مطلب رستہ اور ماچھی ایک قبیلہ ہے جس کا پیشہ مچھلیاں پکڑنا بیچنا ہے جو سندھ اور پنجاب میں کافی تعداد میں آباد ہیں پروفیسر کنگرانی بھی یہ ہی لکھتے ہیں اس کے علاوہ سندھ تاریخ مظہر شاجہانی میں سندھ کے شہر واہی پاندی کو جیسلرا ماچھی کا شہر کہا گیا ہے جو وقت گزرنے کے بعد واہی پاندی ہو گیا اور واہی پاندی بھی چاروں ماچھی سے زیادہ دور نہیں ماچھی دراصل سولنکی راجپوت قبلیہ ہے جسے سندھ میں سولنگی کہا جاتا ہے یہ ریاستی قبیلہ ہے جن کی سرحدی ریاستی آبادی گاج کے کنارے بھی آباد تھیں جو سبی بلوچستان سے لیکر صحراۓ کاچھو جوہی کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں تک پھیلی ہوٸی تھیں
جو بعد میں یہاں سے اندرون سندھ اور پنجاب کے دریاٸی کناروں کی طرف چلے گۓ اور باقی چھوڑ گۓ یہاں اپنا نام چاروں ماچھی چھوٹی چھوٹی آبشاوں اور پونڈز کی صورت میں پھیلا یہ علاقہ اپنا حسن دکھاتا سیاحوں کے دل کی دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے جس کی خوبقورتی ہی اس کے حسن کی مثال ہے شہری آبادی شور شرابے سے کوسوں دور یہ جنت نظیر علاقہ انتہا سے زیادہ خوبصورت ہے
نوٹ یہاں پہنچنے کے لیے آپ کو صبح جلدی نکلنا ہو گا اور واپس دن کے رہتے ہوۓ ہی کرنی ہوگی کیونکہ یہاں کوٸی سہولت موجود نہیں ہے قریب آبادی بھی نہیں ہے اس لیے محفوظ جگہ رہتے وقت میں ہی تلاش کریں

نبیدطب نبویﷺ میں یوں تو بے شمار صحت افزإ چیزوں پھلوں پھلوں جڑی بوٹیوں سبزیوں کا زکر ہے جو انسان کی بیماریوں سے لڑنے صحت...
08/12/2023

نبید
طب نبویﷺ میں یوں تو بے شمار صحت افزإ چیزوں پھلوں پھلوں جڑی بوٹیوں سبزیوں کا زکر ہے جو انسان کی بیماریوں سے لڑنے صحت کاملہ حاصل کرنے اور بیماری سے محفوظ رہنے میں انتہاٸی مددگار ہیں بلکہ بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جو آپ جنرل ٹانک کے طور استعمال کر کے قوت مدافت کو بڑھا سکتے ہیں جو آپ کو موسمی حالات بیماریوں کے بعد کی کمزوری حافظہ کی کمزوری جسمانی اعصابی کمزوری کو دور کرنے میں بہترین دوا ہیں آج ایسے ہی ایک مشروب کا زکر کرتے ہیں
ہمارے پیارے نبی صلى الله عليه وآلہ وسلم کے چند پسندیدہ مشروبات میں سے ایک مشروب نبیذ بھی ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں جو آپ کو ہر طرح کی کمزوری جسمانی ہو اعصابی ہو جوڑوں پٹھوں کے مساٸل معدہ جگر کے مساٸل بیناٸی قوت سماعت خون کی بہترین نشنونما جگر کی اصلاح گردوں کے بہتر افعال میں دل کی طاقت فراہم کرنے میں بہت اہم ہے
نبید بنانے کا طریقہ
ایک مٹی کا پیالہ لیں اس میں ایک گلاس پانی ڈالیں
دس بادام۔ پانچ کھجور۔ ایک چمچ خشخاش۔ ایک چمچ سفید تل۔ ایک چمچ چار مغز۔ایک چمچ کشمش
رات کو بھگو دیں۔
صبح کھجور کی گٹھلی اور کیپ نکال دیں، بادام کے بھی چھلکے اتار دیں۔ اب ان تمام اجزاء کو اچھی طرح کوٹ لیں۔ صبح نہار منہ تھوڑا تھوڑا کرکے پیٸں
انرجی سے بھرپور ٹانک ہے
کسی بھی موسم میں استعمال کیا جاسکتا ہے کسی بھی عمر میں استعمال کیا جاسکتا ہے بیماریوں سے حفاظت اور بیماری کے بعد کی کمزوری میں بھی استعمال کریں
اللہ آپ کو ہمیشہ خوش و سلامت رکھے

سسی دا کالرہضلع تلہ گنگ میں واقع 1 ہزار سال پرانا مندر  چکوال کے شمال مغربی جانب موضع شاہ محمد والی  نالہ لیٹی کے کنارے ...
07/12/2023

سسی دا کالرہ
ضلع تلہ گنگ میں واقع 1 ہزار سال پرانا مندر
چکوال کے شمال مغربی جانب موضع شاہ محمد والی نالہ لیٹی کے کنارے کالا باغ اور مکھڈ کے درمیان دریا سواں کے درمیان شاہ محمد والی کے پاس پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ہے
جو سطع سمندر سے تقریباً 11 فٹ اونچا ہے اور تحقیق کے مطابق ایک ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے اس مندر کو سسی دا کالرہ کہتے ہیں گو کہ اس کی تعمیر کا کوٸی ٹھوس حوالہ موجود نہیں ہے جنرل کننگھم کے مطابق اس کا طرز تعمیر کشمیری ہے کننگھم کے مطابق اس کی تعمیر سن 800 سے لیکر 950 ہے
1883 میں اس مندر کے پاس سے ملنے والا سکا جو کہ وینکا دیوا کے عہد کا تھا اس بات کا حوالہ ہے کہ اس کی تعمیر 8 صدی کی رہی ہو گی جہلم گزییٹر میں بھی یہ ہی حوالہ ہے
اس کے علاوہ ڈاکٹر سٹین کہ مطابق اس کا طرز تعمیر بھی امب مندروں جیسا ہے وہ کہتا ہے اسے ہندو دیوتا شیو یا وشنو کے لیے تعمیر کیا گیا تھا
جبکہ لیاقت خان نیازی نے اپنی مشہور کتاب۔(چکوال تاریخ و ثقافت) میں جنرل کننگھم سے اختلاف کیا ہے اور اس علاقے کوہستان نمک میں موجود مندروں کو جن کو کننگھم نے کشمیری طرز تعمیر بتایا ہے ان سب سے بھی لیاقت خان نیازی اختلاف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ جدید ماہرین اسے ہندو شاہیہ کا نام دیتے ہیں لیاقت خان نیازی اس مندر کو سسی دا کالر یا کالرہ کا نام دیتے ہیں
لیکن مقامی قصے کہانیوں داستانوں میں کہیں بھی اس کا تعلق سسی پنوں سے نہیں ملتا
بحرحال انتہاٸی خستگی کا شکار یہ سسی دا کالرہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے جس کی طرف ادارے کی توجہ بہت ضروری ہے تاکہ اس کو بچایا جاسکے جسے وقت کے رحم و کرم پہ چھوڑا ہوا ہے اور یہ بھی مناسب ہو گا اس کی مکمل تاریخ کو جانچا جاۓ اور مکمل تاریخ سامنے لاٸی جاۓ
یہ تاریخی عمارتیں ہمارے پیارے ملک کا اثاثہ ہیں انہیں تباہ ہونے سے بچایا جاۓ کیونکہ ایسی جگہیں بہترین سیاحت اور تفریح گاہ کا کام دے سکتی ہیں

بینگناللہ کی بناٸی ہوٸی ہر چیز اپنے وجود کے حساب سے سب سے منفرد ہے کیونکہ وہ اللہ ہی ہے جو سب سے بہترین خلق کرنے والا ہے...
05/12/2023

بینگن
اللہ کی بناٸی ہوٸی ہر چیز اپنے وجود کے حساب سے سب سے منفرد ہے کیونکہ وہ اللہ ہی ہے جو سب سے بہترین خلق کرنے والا ہے اس کی خلق میں بے شمار فاٸدے ہیں اس کی پیدا کردہ ہر شے جسم کے لیے بہترین نشونما فراہم کرتی ہے
قدرت نے کھانے کی ہر شے میں غذائیت کے ہمراہ افادیت بھی پوشیدہ رکھی ہے
آج کی بیان کردہ سبزی بینگن بھی ایک ایسی ہی سبزی ہے جسے زیادہ لوگ کھانا پسند نہیں کرتے چلیں آج کچھ اس کے فاٸدے جانتے ہیں
اس سبزی کو آپ آلو ۔گوشت۔ اروی وغیرہ کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں بچپن میں ہم اس کا بھرتہ کھایا کرتے تھے گو آج ایسی چیزیں زاٸقے صحت ایک داستان ہوتی جارہی ہے لیکن کہیں نا کہیں ماٸیں موجود ہیں جو بچوں کو صحت کے ساتھ زاٸقہ بھی فراہم کرتی ہیں اللہ ماٶں کو سلامت رکھے آمین،
بینگن میں Phosphorus وٹامن A.Bاور C اس کے علاوہ Potassium,۔ magnesium اور folic acid بھرپور مقدار میں شامل ہوتے ہیں اسے علاوہ وٹامن B1 اور B6 شامل ہیں
یہ کینسر سے بچاٶ کا بہترین زریعہ ہے
زیابیطس کے مرض کو کنٹرول کرتا ہے
قبض کو ختم کرنے کا بہترین حل ہے امراض معدہ میں مفید ہے گیس اور تبخیر معدہ میں انتہاٸی مفید ہے دل کو مضبوط کرتا ہے یاداشت کی کمزوری کے لیے حافظہ کو طاقت بخشتا ہے
یاد رہے ایک بینگن میں ایک سگریٹ جتنا نیکوٹین پایا جاتا ہے
اسکا مزاج گرم خشک ہے اسے مصالحہ جات کے ساتھ استعمال کریں اور دو چھٹانک سے زیادہ نا کھاٸیں آج کل سوشل میڈیا پر اس کی بہت سی ریسپی موجود ہیں ان سے فاٸدہ حاصل کر کے اسی ترتیب سے بنا لیں بہت سے لوگ میری طرح اس کے پکوڑے بہت پسند کرتے ہیں آپ بھی اس کو اپنے طریقے سے پکا سکتے ہیں
بینگن تقریباً پورا سال مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے یہ دو طرح کا ہوتا ہے گول اور لمبا لیکن مختلف رنگوں میں بھی ہوتا ہے ہمارے ہاں اس کا ایک رنگ ہی زیادہ پایا جاتا ہے لیکن کہیں کہیں سفید رنگ کا بینگن بھی مارکیٹ میں ایک الگ ہی شان سے اپنی پہچان رکھتا ہے
چوٹ موچ یا جوڑوں کا درد
جوڑوں کے درد کے لیے استعمال کریں کرنا یہ ہے بینگن کو دو حصوں میں کاٹ لیں توے پہ سینک کر پسی ہوٸی ہلدی اس پہ لگاٸیں جو پورے بینگن کو چھپا لے پھر اس نیم گرم بینگن کو چوٹ موچ درد پہ باندھ دیں جادوٸی طور پہ آرام آۓ گا رکے ہوۓ خون کو فوراً چلا دے گا اور درد سے نجات ملے گی

موچ کے لیے بینگن لمبی یا گول شکل۔میں باریک کاٹ لیں تھوڑا سا نمک لگا کر توے یا کڑاہی میں گرم کریں جب قتلے ملاٸم ہوجاٸیں تو نیم گرم باندھ لیں دو تین بار کے استعمال سے موچ نکل جاۓ گی
اور اور فاٸدہ جو عورتوں میں بہت زیادہ اثر رکھتا ہے کرنا یہ ہے بینگن جو زیادہ پکا ہوا ہو اس کو پیس لیں چار گناہ ویزلین شامل کر کے پھٹے ہوۓ ہاتھ پاٶں پہ لگاٸیں چند دن میں مکمل طور پہ ہاتھ پاٶں درست ہو جاٸیں گے نرم بھی ہوجاٸیں گے
مزید ہاتھ پاٶں میں پسینہ والے بینگن کو کوٹ کر اس کا پانی نکال کر ہاتھ پاٶں پہ ملیں تو مسلہ حل ہو جاۓ گا
جوڑوں پٹھوں کے مساٸل کے لیے پودے پہ لگے کچے بینگن میں لونگ چھبو دیں جب بینگن پک جاۓ اس اصلی گھی میں تل لیں آپ کے جوڑوں پٹھوں کے لیے بہترین مالش ہے جا کا جادوٸی اثر ہے
سینہ میں بلغم والے افردا اس کا ستعمال کریں چند دن میں سینہ صاف ہو جاۓ گا
احتیاطی تدابیر
بینگن پیشاب آور ہے بینگن کا بہت زیادہ استعمال مضر صحت ہے مگر بلغمی مزاج والوں کیلئے ایسا نہیں۔ جن لوگوں کو جسم میں خشکی ہو، نیند کم آتی ہو اور بواسیر کی شکایت ہو انہیں بینگن ہرگز نہیں کھانا چاہیے۔ بینگن کا استعمال ہر قسم کے بخاروں میں منع ہے۔
کوٸی بھی چیز ہو پھل سبزی جڑی بوٹی اس کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دے ہے ایک حد میں استعمال۔فاٸدہ مند ہے اسلام میں اعتدال پسندی کا حکم دیتا ہے اس لیے ہر چیز کا استعمال محتاط طریقے سے کریں
سلامت رہیں آباد رہیں

قینچی والا پل یا ایوب پل (لینسڈاٶن پل) سکھر سکھر اور روہڑی کے درمیان بننے والے پل جو عظیم کارنامے ہیں پہلا پل 19 صدی میں...
03/12/2023

قینچی والا پل
یا ایوب پل (لینسڈاٶن پل) سکھر
سکھر اور روہڑی کے درمیان بننے والے پل جو عظیم کارنامے ہیں پہلا پل 19 صدی میں 1887 میں بنایا گیا جس کا مقصد کراچی کو پشاور اور کلکتہ سے جوڑنا تھا
دوسرا پل اس بات کو مدنظر رکھتے ہوۓ کہ پرانے پل سے بوجھ کم کیا جاسکے پرانا پل کسی بھی وقت زیادہ بوجھ سے کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ یہ پرانا ہو چکا ہے جسے 1962 میں اس وقت کے صدر ایوب خان نے بنوایا اور انہی کے نام سے اسے منسوب کیا گیا
زیر نظر تصاویر میں دونوں پل دیکھے جاسکتے ہیں
پہلے پل کو 1887 میں اس وقت کے انجینٸر الگیزینڑ رینڑر نے اس کا نقشہ بنایا اور ایف ای رابرٹسن اور ہیکٹ نے اسے تعمیر کیا
اس پل کو دو سال میں تعمیر کیا گیا یہ پہلا کنٹیلیور پل تھا اس پل کی لمباٸی 900 فٹ ہے اس پل میں کی بناوٹ میں استعمال ہونے والا سامان بحری جہازوں کے زریعے برطانیہ سے لایا گیا 1889 میں اس سے پہلی باقاعدہ ٹرین گزری یاد رہے اپنی نوعیت کا یہ واحد پل ہے جو اس طرح ڈیزاٸن کیا گیا کیونکہ یہاں دریا سندھ پتھریلا نہیں ہے بلکہ سلیپری ہے اس لیے بغیر ستون کے پل بنانا پڑا جو انتہاٸی مشکل کام تھا اور یہاں سے دریا کی گہراٸی 250 فٹ سے زیادہ ہے اس وقت اس میں استعمال ہونے والے لوہے کا وزن 3300 ٹن تھا جسے 28 لاکھ روپے کی لاگت میں تعمیر کیا گیا۔
بعدزاں 1962 میں اس پل سے بوجھ کم کرنے یا کسی حادثے سے بچنے کی غرض سے اس ہی کے ساتھ دوسرا اسی شکل اور جسامت کا پل بنایا گیا جسے دنیا کی مشہور کمپنی EB سٹیومر نے بنایا
اس مرتبہ بھی اس کے نیچے کوٸی ستون نہیں بنایا گیا اور اسے فولادی تاروں سے سہارا دیا گیا اب کی بار اس پہ 2 کروڑ سے زیادہ لاگت آٸی یاد رہے اس وقت پل کی تعمیر میں تقریباً 40 مزدور ہلاک ہوۓ
آج یہ پل دنیا کے خوبصورت پلوں میں شمار ہوتا ہے جسے دنیا بھر سے سیاح اور تعمیرات کے ماہر دیکھنے آتے ہیں ہیں
یہ پل سندھ کے شہر سکھر روہڑی کو باقی سندھ بلوچستان پنجاب اور پختنخواہ سے جوڑتا ہے پہلے ٹرین کلکتہ انڈیا تک جاتی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد اب ٹرین انڈیا نہیں جاتی
سکھر ایک تاریخی شہر ہے روہڑی اور سکھر تاریخی حوالے سے بھی مشہور ہیں اسی پل کے ساتھ ہی ستیوں کا ڈیرہ یا شاہی قبرستان بھی موجود ہے جس کی پوسٹ پہلے سے پیج پہ مکمل تفصیل سے موجود ہے اس کے علاوہ معصوم مینار معصوم شاہ بکھری کی پوسٹ بھی پیج پہ موجود ہے
۔۔
یہ لنک معصوم شاہ بکھری مینار و مقبرہ کا ہے
https://www.facebook.com/100067327639344/posts/529159802671603/?app=fbl
یہ لنک ستیوں کا ڈیرہ یا شاہی قبرستان کا ہے
https://www.facebook.com/304472983822901/posts/1116990559237802/?app=fbl

جھیل سیف الملوکاک پراسرار سحر انگیز جھیل محبت اور خوبصورتی کی لازوال عکاسناران بازار  سے تقریباً 9 کلومیٹر اور وادی کاغا...
02/12/2023

جھیل سیف الملوک
اک پراسرار سحر انگیز جھیل
محبت اور خوبصورتی کی لازوال عکاس
ناران بازار سے تقریباً 9 کلومیٹر اور وادی کاغان کے شمال میں سطح سمندر سے 10578 فٹ بلندی پر واقع ہے جھیل سیف الملوک کی لمبائی 1420 فٹ، چوڑائی 450 فٹ اور اوسط گہرائی 50 فٹ کے لگ بھگ ہے
اس خوبصورت جھیل سیف الملوک کو تینوں طرف سے برفیلی چوٹیوں نے گھیرا ہوا ہے۔
اس جھیل کا بننا بھی ایسا ہی ہے جب ہزاروں سال پہلے زمین میں تبدیلیوں کی وجہ سے ایک بڑا برفانی تودہ گرا جس نے دریا کے پانی کو روک دیا جو جھیل کے درمیان سے گزرتا ہے جس کا نام دریا کنہار ہے جو آپ راستے میں جاتے ہوۓ بالاکوٹ سے بھی دیکھتے ہیں جو آگے جاکے پٹن کے مقام پہ ایک ڈیم بناتا ہے ہزاروں سال پہلے یہ وادی مکمل برف پوش تھی
جھیل سیف الملوک کی وجہ شہرت اس کی خوبصورتی سے زیادہ رومانوی داستان ہے یہی وہ جھیل ہے جہاں داستان نویسوں، شاعروں اور مقامی لوگوں کے مطابق سیف الملوک نامی آدم زاد اور بدیع الجمال نامی پری کی محبت پروان چڑھی اور پھر اپنے منطقی انجام کو بھی پہنچی۔
جھیل کے ساتھ برف پوش پہاڑی ملکہ پربت ہے اس کی بلندی 17 ہزار 390 فٹ ہے اور یاد رہے اسے آج تک کوٸی سر نہیں کر سکا
مقامی لوگوں کے مطابق یا داستان گو اس پہاڑ کو پری بدیع الجمال کا عاشق سفید دیو ہے جو بعد میں سیف الملوک کی بدعا سے پہاڑ میں تبدیل ہو گیا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس پہ شہزادی اور اس کی سہیلیاں پریاں رہتی تھیں جن کی تعداد شہزادی سمیت 360 تھی وہ اس جھیل میں غسل کے لیے آتی تھیں
یہاں سے ہی ایک پری شہزادی بدیع الجمال جو سیف الملوک کی محبت میں گرفتار ہوٸی اور ایک رومانوی داستان میں امر ہوگٸ
مقامی لوگوں کا کہنا ہے اب بھی چاند کی چودہویں رات کو پریاں اس جھیل میں آتی ہیں جن کے رقص اس جھیل میں اس کے ارد گرد ہوتے ہیں جس کا ثبوت وہ یہ پیش کرتے ہیں کے چودہویں رات ہمارے گھوڑے کسی غیرمرٸی مخلوق کو دیکھ کے بدکتے ہیں آوازیں نکالتے ہیں اور جھیل کی طرف نہیں جاتے
دوسرا ثبوت وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ناران بازار کے عقب میں وہ غار موجود ہیں جس میں سیف الملوک اور بدیع الجمال آج بھی زندہ ہیں (اس غار کی تصویریں نیچے دی گٸ تصویروں میں موجود ہی)
یاد رہے مشہور روحانی شخصیت میاں محمد بخشؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سیف الملوک میں اس داستان اور جھیل کا زکر تفصیل سے کیا ہے یہاں کی خوبصورتی کو واضع طور بیان کیا ہے
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ناران پہلے ایک بڑا شہر تھا جو آنے والے برفانی سیلاب کی نظر ہو گیا اور تباہ ہوا گو ایسا کوٸی واضع ثبوت نظر تو نہیں آتا لیکن ممکن ہو بھی سکتا ہے لوگوں کا کہنا ہے اب بھی سیلابی پانی اس غار میں بھی بھر جاتا ہے جس میں سیف الملوک اور بدیع الجمال چھپے تھے
حقیقت جو بھی ہو افسانہ کیا ہے لیکن سچ یہ ہے جھیل واقع ہی سحر انگیز حسن کی مالک ہے اس پہ نظر پڑتے ہی آپ بھی اس داستان کو سامنے پاتے ہیں آپ کو پریاں سامنے نظر آتی ہیں اور آپ خود کو اس داستان کا حصہ پاتے ہیں اللہ کی بناٸی اس شاندار تخلیق کو دیکھ کر آپ بھی سبحان اللہ کہہ اٹھتے ہیں یہ اللہ کی شان ہے اتنی خوبصورت جھیل شاید کہیں نہیں ہے

بھیرہ #بھیرہ ضلع  #سرگودھا کی تحصیل ہے سرگودھا سے 57 کلو میٹر لاہور سے 207 اور  #اسلام آباد سے 183 کلو میٹر پہ واقع ہےبھ...
29/11/2023

بھیرہ
#بھیرہ ضلع #سرگودھا کی تحصیل ہے سرگودھا سے 57 کلو میٹر لاہور سے 207 اور #اسلام آباد سے 183 کلو میٹر پہ واقع ہے
بھروچی تہزیب کا امین یہ شہر بہت بڑی تاریخ رکھتا ہے اگر لاہور واٸلڈ سٹی کی طرح اس شہر میں کام کیا جاۓ تو یہ اس شہر کا چپہ چپہ تاریخ سے بھرا پڑا ہے جس نے سکندر اعظم کے حملوں کی یلغار دیکھی جس نے مغلیہ دور سکھا شاہی دور انگریز دور اپنی آغوش میں اکٹھے کیے ہوۓ ہیں
#بھیرہ کا قدیم نام چوب ناتھ نگر تھا ۔2017 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 3 لاکھ 14 ہزار سے زائد تھی جس میں ڈھائی لاکھ سے اوپر دیہی جبکہ 60 ہزار سے زائد شہری زندگی میں موجود ہے۔ کل 504 مربع کیلومیٹر پہ محیط یہ تحصیل 110 گاؤں اور 16 یونین کونسلوں پہ مشتمل ہے۔ 17 جولائی 2012ء میں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا
بھیرہ شروع سے ہی اہم تجارتی مرکز رہا ہے یہاں لکڑی کا کام مہندی تعمیراتی مواد اور ماہر ہنر مند ہر وقت موجود ہوتے تھے
بھیرہ کی تاریخی طور پہ اہمیت کو تاریخی حوالہ جات کے طور پہ الیگزینڈر کنگھم کی کتاب Ancient Geography of India, چینی زائر فی شان کا 2ہزار سال قبل بھیرہ کا ذکر، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا اپنی کتاب تزک بابری میں ، یونانی تاریخ دان آریان اور جان برگز کا فرشتے میں بھیرہ کا نمایاں طور پہ ذکر دیکھا جا سکتا ہے
یاد رہے یہ وہی سرزمین ہے جہاں فاتح دنیا سکندر اعظم کو راجہ پورس کا سخت مقابلہ کرنا پڑا کہتے ہیں سکندر اعظم یہاں شکست سے دوچار ہوا اور اس کا گھوڑا بھی اسی جنگ میں زخمی ہوا اور بعد میں مارا گیا محقیقن کا خیال ہے کہ گھوڑا #پھالیہ کے نزدیک جا کے مرا راجہ پورس کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا
کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ راجہ پورس کہ ہاتھیوں کی سونڈھیں کاٹنے کی وجہ سے ہاتھی پورس کی ہی فوج پہ چڑھ گۓ جس کی وجہ سے پورس شکست خورد ہوا اور پھر بعد میں سکندر اعظم نے اس کی بہادری کو دیکھتے ہوۓ اس کا علاقہ اسے واپس کر دیا لیکن کچھ تاریخ دانوں میں یہ اختلاف ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ سکندر یونانی کو یہاں سے بھاگنا پڑا بحر حال جو بھی ہو یہ خطہ بہت تاریخی ہے
تاریخ میں بہت سے جنگجو۔حملہ آور۔بہادروں اور تاجروں نے اس خطے پہ قدم جماۓ گیارہویں صدی میں محمود غزنوی 1519 میں ظہیرالدین بابر 1540 میں شیر شاہ سوری نے یہاں اپنی حکومت میں بہت سے کام کیے
یاد رہے یہاں مشہور #بھیرہ کی مسجد جسے شروع میں شیر شاہ سوری نے بنوایا بعد میں اسی کی بنیادوں پہ ابھی نٸ مسجد موجود ہے جسے شیر شاہ سوری مسجد ہی کہا جاتا ہے
اس بھروچی تہزیب کو بچاۓ رکھنے کے لیے شیر شاہ سوری نے ناقابل فراموش کام کیا اس تہزیب کو دریاۓ جہلم کے مغربی کنارے سے لاکر مشرقی کنارے پہ دوبارہ نٸ سرے سے آباد کیا (اب پرانا بھیرہ ضلع جہلم میں ہے) اس کے علاوہ شیر شاہ سوری نے یہاں سڑکیں مینار اور فصیلوں کے علاوہ یہاں آٹھ دروازے جو شہر کی بلند اور مضبوط فصیل میں تھے قاٸم کیے
آٹھ دروازے جو کہ مختلف سمتوں میں واقع شہروں یا علاقوں کے نام پہ رکھے گئے جن میں لاہوری دروازہ ، کشمیری۔ چٹی پلی ۔ دروازہ، ملتانی ۔لالو والی۔دروازہ، چنیوٹی ۔چک والا۔دروازہ، کابلی دروازہ، پیراں والا، لوہاراں والا دروازہ اور چڑی چوگ دروازہ جس کے باہر ایک برگد کا درخت ہوتا تھا یہ دونوں اب ختم ہو چکے ہیں
یاد رہے انگریز دور میں یہاں کے ڈپٹی کمشنر کلفٹن ڈیوس نے یہاں کے مشہور ماہر تعمیرات دھر چند کوہلی کی خدمات حاصل کیں اور ان دروازوں کی دوبارہ تعمیر اور مناسب مرمت بھی کی۔)
1757 میں احمد شاہ درانی نے بھی اس خطہ میں اہنی دھاک جماٸی رکھی
پھر سکھا شاہی دور میں یہاں بہت سی تباہی ہوٸی لیکن یہاں اپنی حکومت جمانے کے لیے بہت سے کام کیے گۓ عمارتیں تعمیر کی گٸ گردوارے مندر تعمیر کیے گۓ یہاں ٹکسالی کا قیام کیا گیا جہاں سونے اور چاندی کے سکے بناۓ جاتے تھے
سکھا شاہی دور کے بعد یہاں انگریز وارد ہوۓ انہوں نے اس شہر کی تاریخ کو دیکھتے ہوۓ یہاں بہت سے کام کیے 1840 میں یہاں مزید ایک مسجد تعمیر کی گٸ اس کے علاوہ سکھوں کے گردوارے ہندٶں کے مندر اور دیگر عبادت گاہیں بھی بناٸی گٸیں
انگریز نے 1881 میں یہاں ریلوے لاٸن بچھاٸی ریلوے اسٹیشن بنایا جیسا کے اوپر زکر کیا گیا یہاں موجود آٹھ دروازوں کی دوبارہ تعمیر کی گٸ خستہ حال عمارتوں کی مرمت و دیکھ بھال اور تعلیم و صحت صنعت و تجارت کو مزید بڑھایہ اور 2 اپریل 1927 میں یہاں سرکاری اسکول کا قیام ہوا۔
بھیرہ کی گلی کوچوں میں تعمیر پرانی عمارتیں آج بھی اپنے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈالتی ہیں کے کیسے ان میں عمدہ کاریگری سے لکڑی کا بہترین کام کیا گیا جو ہر عمارت کے دروازوں کھڑکیوں بالکونیوں میں دیکھا دیکھاجاسکتا ہے جو آج بھی منفرد ہے اور عمارتوں کو چونے سرخ مٹی چھوٹی اینٹوں اور منفرد رنگوں سے بنایا گیا ہے
گو کہ آٹھ دروازے وقت کی غفلت کا شکار ہو گۓ ہیں ان میں سے اب چار چاردروازے ہی باقی ہیں
واضح رہے کہ قدیم بھیرہ اب ضلع جہلم میں جبکہ بعد میں 1540ء میں بسایا جانے والا شہر دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر ضلع سرگودھا میں واقع ہے۔
موجودہ بھیرہ روحانی علم دانش کا مرکز سمجھا جاتا ہے
یہاں کا زیادہ زریعہ معاش زراعت ہے اور تھوڑے عرصہ میں پورے پاکستان کہ علاوہ دنیا میں مشہور ہونے والی میٹھی سوغات پھینیاں بھی اس شہر کی ایجاد ہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کو تاریخی حوالہ سے بھرپور توجہ دی جاۓ اور اس کی تاریخ کو پوری دنیا کے سامنے لایا جاۓ تاکہ یہاں آنے والے سیاح ایک بہترین تفریح کے ساتھ اس کی تاریخ سے بھی واقف ہوں

کس کس کو یاد ہے اور نام بتاٸیں ۔؟۔
27/11/2023

کس کس کو یاد ہے اور نام بتاٸیں ۔؟۔

الیگزینڈر ریلوے پلوزیر آباد محبتوں کا شہر وزیر آباد یوں تو یہ شہر دنیا بھر میں اپنے کیٹلری بنانے کی پہچان رکھتا ہے اس کے...
26/11/2023

الیگزینڈر ریلوے پل
وزیر آباد محبتوں کا شہر وزیر آباد یوں تو یہ شہر دنیا بھر میں اپنے کیٹلری بنانے کی پہچان رکھتا ہے اس کے ساتھ یہ تاریخی شہر بھی ہے جس کا نام بھی تاریخی ہے ہم اس شہر کا زکر کرنے کے علاوہ حال ہی میں ایک خوبصورت جھیل کا زکر بھی کر چکے ہیں جس کی پوسٹ کچھ دن پہلے گھیمن جھیل کے نام سے ہوٸی تھی اس کے اوپر بھی یہ ایک خوبصورت ریلوے پل موجود ہے لیکن اس پوسٹ میں زکر کیا جانے والا پل ریلوے کا ہی ہے لیکن یہ دریا چناب پہ واقع ہے پشاور کراچی ریلوے لاٸن پہ موجود وزیر آباد جنکشن کے بعد آنے والا یہ پل بھی بہت خوبصورت ہے
1 نومبر 1871 میں اس کو بنانے کا آغاز کیا گیا جس کا افتتاح 26 جنوری 1876 کیا گیا تقریباً 400 میٹر لمبے اس پل میں 18 سپینز بناۓ گے جن کا آپسی فاصلہ 43 میٹر کے قریب ہے
اس پل کو بنانے کا مقصد لاہور کو گجرات اور جہلم سے جوڑنا تھا اس پل کو پہلے میٹر گیج ریلوے لاٸن کے طور تعمیر کیا گیا تھا لیکن دوسال بعد اسے براڈ گیج ریلوے لاٸن کے حساب سے اپگریڈ کیا گیا یہ پل وزیر آباد اور گجرات کے درمیان واقع ہے
یاد رہے اسی دوران تین ریلوے پل تعمیر کیے گے تھے اس پل کے علاوہ سراۓ عالمگیر اور جہلم کے درمیان اور تیسرا پل لاہور اور شاہدرہ کے درمیان بنایا گیا ان تین پلوں کے درمیان فاصلہ 103 کلو میٹر کا تھا
اس پل کے نیچے بہتا دریا چناب کیا نظارہ پیش کرتا ہے حد نگاہ تک پھیلا یہ دریا اوپر سے یہ پل اور ساتھ ہی گزرتی شاہرہ کا پل کمال کی سنری بناتے ہیں

25/11/2023

مسجد نورحرم
کھوکھر میرا #حویلیاں #ایبٹ آباد
ایبٹ آباد شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر اسلام آباد کی طرف جاتے ہوۓ موٹروے انٹرچینج سے تقریباً 1 کلومیٹر کے فاصلے پہ #کھوکھر میرا کی مشہور سماجی شخصیت حاجی غلام ربانی کی طرف سے اسلام سے محبت کا منہ بولتا ثبوت یہ مسجد جو ہمارے علاقے کی سب سے خوبصورت مسجد جس کا افتتاح حال ہی میں مفتی محمود الحسن مسعودی نے 17 نومبر 2023 کو کیا
3 ہزار نمازیوں کی گنجاٸش ہے اس مسجد میں مسجد اسلامی شاہکار کا نمونہ ہے سفید چار گمبد اس مسجد کا چار چاند لگاتے ہیں اس سے بڑھ کے اس مسجد کا داخلی دروازہ جو بلکل مسجد نبویﷺ کی طرز کا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر زیر تعمیر مینار ہے جو بلکل مسجد نبویﷺ مینار جیسا ہی ہو گا جو جلد ہی تعمیر مکمل کر لے گا اندر اور باہر سفید اور نیلے رنگ کی ٹاٸلوں کا خوبصورت کام مسجد کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے اس کے علاوہ سنہری رنگ مزید حسن کو نکھارتا ہے اندر اور باہر شیشے کا کام بھی انتہاٸی منفرد ہے بڑا صحن خوبصورت پھولوں سے سجا ہوا ہے بلند بالا پہاڑ اس مسجد کی خوبصورتی اور بڑھاتے ہیں بلکل شاہرہ ریشم کے اوپر واقع مسجد دیکھنے والے کو اپنی طرف ضرور کھینچتی ہے اور سب سے بڑھ کے اس مسجد کی جگہ سے لے کر مکمل تعمیر صرف ایک بندے کی ہے

کیلاٶگلگت بلتستان کی خاص اور بہترین سوغات جو لزت کے ساتھ صحت بھی سردی سے بچاٶ بھی اور سب سے بڑھ کے بنانے کا طریقہ سادہ ا...
25/11/2023

کیلاٶ
گلگت بلتستان کی خاص اور بہترین سوغات جو لزت کے ساتھ صحت بھی سردی سے بچاٶ بھی اور سب سے بڑھ کے بنانے کا طریقہ سادہ اور دیسی۔
انگور اور اخروٹ کا بہترین امتزاج
انگور کو بڑے برتن میں ڈال کر خوب پکایا جاتا ہے تاکہ انگور اپنی شکل تبدیل کر کے ایک گاڑھے شیرے میں تبدیل ہو جاۓ ساتھ ہی اخروٹ کو توڑ کر اس کی گری نکال لی جاتی ہے پھر اسے دھاگوں میں پرو لیا جاتا ہے
اب دوسری طرف پکے ہوۓ تیار شیرے کو اتار کر تھوڑا ٹھنڈا کر لیا جاتا ہے نیم گرم شیرے میں اخروٹ کی دھاگے میں پروٸی گریوں کو ڈال دیا جاتا ہے یوں شیرہ اخروٹ کی گریوں کو اپنے محبت بھرے حصار میں لے لیتا ہے اور اخروٹ پہ انگور کے شیرے کی محبت بھری چادر نمایاں نظر آنے لگتی ہے پھر دونوں کو نکال کر دھوپ میں سکھا لیا جاتا ہے کسی ایسی جگہ رسی یا لکڑی وغیرہ کی مدد سے جہاں سے مٹی اور باقی گندگی سے محفوظ رہے مکھیوں مچھروں سے بلکل محفوظ ہوتا ہے کیونکہ سردی میں یہاں مکھی مچھر نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں
(دوسرا طریقہ اور جو زیادہ استعمال ہوتا تھا اس میں ۔انگور کا رس شہتوت کا رس۔اور شہد کا شیرہ ہوتا ہے اس میں اخروٹ یا بادام کو ڈالا جاتا ہے)(اب عام طور لوگ چاکلیٹ کا استعمال کرتے ہیں دو طرح کا کیلاٶ ملتا ہے چاکلیٹی اور سفید کیلاٶ جسے چاٸنی کیلاٶ کہا جاتا ہے جو کاشغر چاٸنا سے آتا ہے)
رکیے اب فاٸدے جانتے ہیں دیسی خوراک اور تیار کرنے والے دیسی اور دیسی طریقہ سے تیار ہوٸی یہ لزیز سوغات ۔سردی سے بہترین بچاٶ فراہم کرتی ہے۔کولیسٹرول لیول کو اعتدال پہ رکھتی ہے اگر بڑھا ہوا ہے کم کرتی ہے۔ دماغی افعال کو تیز بناتی ہے دماغی تھکن ختم کرتی ہے نیند کی کمی دور ہو جاتی ہے اعصاب کے لیے بہترین ٹانک ہے شریانوں میں خون کا بہاٶ اچھا رکھنے میں بہترین مدد گار ہے چہرے پہ پڑنے والی جھریوں خشکی کے خاتمے کا باعث ہے جسمانی تھکن میں بہت مفید ہے بلڈ پریشر کا کنٹرول میں رکھنا اس کی خوبی ہے اور سب سے بڑھ کے موسمی نزلہ زکام کھانسی سینہ کی خرابی نہیں ہونے دیتی جسمانی و دماغی مشقت والوں کے لیے نہایت اہم ہے
بے شمار فاٸدوں کے ساتھ انتہاٸی مزیدار غزا ہے اسے سردیوں میں ہی بنایا اور کھایا جاتا ہے

قلعہ کوٹ ڈیجیاحمد آباد خیر پور سندھ 1785 سے 1795 کے درمیان میر سہراب خان تالپور نے اس عظیم قلعے کی تعمیر کرواٸی کچھ محقی...
23/11/2023

قلعہ کوٹ ڈیجی
احمد آباد خیر پور سندھ
1785 سے 1795 کے درمیان میر سہراب خان تالپور نے اس عظیم قلعے کی تعمیر کرواٸی کچھ محقین محقینکے مطابق اس کی تعمیر 1790 سے شروع ہوٸی مقامی لوگوں کے مطابق اسے 30 سال کے عرصہ میں مکمل کیا گیا جو دریا سندھ سے 25 میل مشرقی (سہراب خان تالپور نے اس قلعے کو اپنی موت سے کچھ سال قبل رہائش کے لیے تیار کروایا تھا مگر جلد ہی اختیارات اپنے بیٹے کے حوالے کردیئے۔)طرف تھر سحرا کے کونے میں واقع ہے( یہ قلعہ احمد آباد ایرانی معمار جس نے اس کا نقشہ بنایا اسی کے نام پہ احمد آباد کہلایا) خیر پور شہر سے اس کا فاصلہ کوٸی 15 میل بنتا ہے یہ قلعہ 5 سو فٹ لمبا 3 ہزار فٹ چوڑا ہے اس کی پہاڑی سمیت اونچاٸی 90 فٹ ہے یہ قلعہ بھی چونا پتھر سے تعیر شدہ ہے یہ قلعہ میر سہراب خان تالپور نے تعمیر کروایا لیکن یہاں ہونے والی کھداٸی سے ملنے والے آثار ہزاروں برس پرانے ہیں پہلے بات کرتے ہیں یہاں سے ملنے والے آثار کی 26 فروری 1958 سے شروع ہونے والی کھداٸی سے راز کھلا کے یہ پورا علاقہ 33 سو قبل مسیح سے زیادہ پرانا ہے جو دریائے سندھ کے سیلابی راستے کے قریب اور کوٹ دیجی کے جدید قصبے کے ساتھ ہے قدیم جگہ ایک پتھر کی دیوار پہ مشتمل ہے جو ایک قدیمی قلعہ اور بڑی آبادی کے ارد گرد تھی تاریخدان اس آبادی کو 33 سو سال قبل از مسیح بتاتے ہیں جو کہ ہڑپہ تہزیب کا ابتداٸی دور تھا اور یہ تہزیب ہڑپان کے ابتداٸی پختہ تعمیر کے ابتداٸی دور یعنی 26 سو سال قبل از مسیح سے 1750 قبل از مسیح تک جاری رہی یہی آثار کوٹ دیجان کے منفرد انداز کو ظاہر کرتے ہیں اس کھداٸی میں ملنے والی آبادی کی سطحوں کی کل تعداد 16 ہے
یاد رہے قلعہ کے اندر ہونے والی کھداٸی کا زمانہ 3155 قبل از مسیح سے 2590 قبل از مسیح ہے قلعہ کے باہر کھداٸی سے دریافت ہونے والی آبادی 2885 سال قبل از مسیح سے لیکر 2805 قبل از مسیح کے ملے ہیں
اب بات کرتے ہیں موجودہ قلعہ کوٹ ڈیجی کی 1783 میں قاٸم ہونے والی اوپری سندھ کی حکومت تالپور جس کے بانی میر سہراب خان تالپور تھے
اس قلعہ کو تین تالپور خاندانوں نے تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا ایک حصہ حید آباد کے تالپور خاندان کے پاس تھا دورسرا حصہ خیرپور کے تالپور خاندان اور تیسرا خیرپور میریس کے تالپور خاندان کے پاس تھا
خیر پور میرس کے حکمران سہراب خان تالپور نے اپنی حکومت میں حکومتی حفاظت و مضبوطی کے لیے اور بھی قلعے تعمیر کرواۓ جن میں تھر میں امام گڑھ جودھ پور میں شاہ گڑھ
اور اس کے علاوہ ایک مٹی سے دیوار بنواٸی جس کی لمباٸی پانچ کلومیٹر اور چوڑاٸی 12 فٹ تھی جو شہر کے گرد حفاظتی حصار بناتی تھی
قلعہ کے باہر ایک باغ تھا جو باہری مہمانوں کے لیے تھا جسے فیض باغ کہا جاتا تھا
قلعے کے اندر داخل ہونے کے لیے تین بڑے دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
پہلا دروازہ مضبوط لکڑی سے بنا ہے جس میں ہاتھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے لوہے کی نوک دار کیلیں لگائی گئی ہیں۔ دروازے کی چوڑائی 10 فٹ اونچاٸی 15 فٹ ہے۔ دروازے کے اندر داخل ہوں تو ایک میدان ہے جس کے مشرق میں سفید پتھروں سے دیوار بنی ہوئی ہے۔
آگے چل کر دوسرا دروازہ ہے باہری دروازے کی طرح لیکن یہ پہلے دروازے س چھوٹا ہے لیکن بناوٹ ایک جیسی ہے ( نیچے دی گٸ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے) لیکن یہ آگے چل کر سرنگ نما راستے کو بند کرتا ہے پہلے دروازے سے تیسرے دروازے تک قلعے کی شکل اسی پہاڑی کی طرح رکھی ہے جس پر قلعہ تعمیر کیا گیا
اصل قلعہ تیسرے دروزاے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اب اس قلعے کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے مغربی وسطی اور شمالی مجموعی طور پر اس قلعے میں33 برج ہیں اور ہر برج میں بیرک تھی۔ تیسرے دروازے کے پیچھے ایک فتح مینار موجود ہے۔ جہاں سے ہم پورے قلع پر نظر رکھی جاتی
مشرقی جانب آخری کونے میں ایک وسیع برج ہے جس پر دو توپیں ہوا کرتی تھیں شمال مغربی جانب شہید بادشاہ برج ہے جہاں سے شہید بادشاہ کا مزار ڈیجی کے قدیم آثار اور نیشنل ہاٸی وے کو دیکھا جاسکتا ہے برجوں کو نام دیے گے ہیں فتح ٹل شفان شفاءاور ملک میدان برج وغیرہ ۔
ایک اور برج جو مشرقی کونے کی جانب لے جاتا ہے اور جس کا منہ صحرا میں جیسلمیر کی جانب ہے اسے جیسلمیر ٹھل کہا جاتا ہے۔
ایک برج کا نام مریم ٹھل ہے جہاں مریم نامی توپ ہوتی تھی جسے اب خیرپور شہر میں قومی شاہراہ کی کراسنگ پر رکھا گیا ہے۔
قلعے کی فصیل میں گیلریوں کی شکل کے کمرے ہیں جنہیں غلام گردش کہا جاتا تھا یہ ان لوگوں کے لیے تھیں جو شاہی خاندان خاندان کا استقبال کیا کرتےتھے
یہاں ایک تالاب بھی ہے جس میں پینے کا پانی زخیرہ کیا جاتا تھا یہ تالاب 3.75 میٹر گہرا اور 11 میٹر لمبا ہے اس کی چوڑائی 7میٹر سے کچھ کم ہے۔
قلعے کے مشرق کی جانب برج کا رخ جیسلمیر کی طرف ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی جیسلمیر برج رکھا گیا ہے۔ جنوب مشرق میں میروں کی رہائش گاہیں یا حرم موجود ہے۔ قلعے کے اختتامی حصے میں ایک بہت خوبصورت تخت بنا ہوا ہے جس پر بیٹھ کر والیء ریاست دربار لگاتے اور اہم فیصلوں کا اعلان کرتے۔

کوٹ ڈیجی قلعہ کی تعمیر بھی بہت منفرد انداز میں کی گٸ جس کی وجہ سے اسے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا ایک تو دفاٸی طور پہ بنایا گیا تھا قلعہ کو بلند پہاڑی نما بنایا گیا تھا اور اس کی تعمیر میں ایسی پیچیدیگیاں رکھی گٸں کے دشمن کو اس کو فتح کرنا تقریباً ناممکن ہونے کے ساتھ اس کو گھیر کر شکست و مات آسانی سے دی جاسکتی تھی
قلعے تک رسائی ایک بڑے لکڑی کے ہاتھی ثبوت گیٹ سے ہے جسے شاہی دروازہ کہا جاتا ہے جس میں لوہے کی چمکیں شامل ہیں۔
اس قلعہ کو ابتدإ میں چوڑا اور آگے کا حصہ تنگ رکھا گیا ہے۔ باہر سے آنے والا جیسے جیسے اندر داخل ہوگا ویسے ویسے اسے نظر آئے گا کہ اندر کئی روکاوٹیں کھڑی ہیں۔ اس میں الگ الگ جگہ منجنیقیں رکھی گٸ تھیں جو کہ اسلامی دور میں ہی متعارف ہوئیں۔ اس کے اندر چھوٹی توپیں بھی مختلف جگہوں پر لگاٸی گٸ تھیں۔ ان خصوصیات کی وجہ سے کسی بھی لشکر کا اندر داخل ہونا اور بچ کر نکلنا کافی مشکل تھا۔یہ قلعہ دفاعی امور کے علاوہ سپاہیوں کی رہاٸش گاہ بھی تھا
تاہم 1843 کی سندھ کی فتح کے بعد یہ تھار صحرا کا حصہ بنا جیسلمیر صحرا اب انڈیا میں ہے۔
اوپری سندھ کی بادشاہت کو برطانوی حکومت نے خیرپور کی نوابی ریاست کے طور پر تسلیم تو کیا لیکن اس کے اصل رقبے کو کم کر دیا۔ اصل علاقہ 50 ہزار کلومیٹر تھا۔
یہ قلعہ فوجی اڈے کے طور استعمال ہونے لگا خاص طور پہ افغان حملوں ںسے بچنے کے لیے انگریز اس مضبوط قلعہ کو استعمال کرتے تھے یہ قلعہ قریبی واقع 20 قلعوں میں سب سے زیادہ مضبوط اور محفوظ سمجھا جاتا تھا(لیکن تاریخ میں کبھی بھی اس قلعہ پہ کوٸی جنگی حملہ نہیں ہوا)
تیسرے دروازے کے بالکل سامنے کچھ کمرے ہیں جن پہ اب چھتیں نہیں ہیں ان کو اسلحہ خانہ کے طور استعمال کیا جاتا تھا
قیام پاکستان کے بعد 1955 میں میر علی مراد دوٸم نے یہ قلعہ پاکستان حکومت کے سپرد کر دیا
یہ قلعہ اپنے فن تعمیر کی واحد مثال ہے جو آپ کو کہیں نہیں ملے گی اس کا فن تعمیر ہی اسے ایک عظیم شاہکار بناتا ہے
نوٹ خیرپور میں موجود فیض محل تالپور اور سفید محل کی تفصیلی پوسٹ بھی پیج پہ موجود ہے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=553806413540275&id=100067327639344&mibextid=Nif5oz۔۔
۔۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=425484889705762&id=100067327639344&mibextid=Nif5oz

مکئی(چھلی)  ماہرین کے مطابق مکئی کے 1 کپ میں 177 کیلوریز 41 گرام فائبر 5.4 گرام نمکیات 2.1 گرام چکنائی 4.6 گرام ریشہ روز...
22/11/2023

مکئی(چھلی)
ماہرین کے مطابق مکئی کے 1 کپ میں 177 کیلوریز 41 گرام فائبر 5.4 گرام نمکیات 2.1 گرام چکنائی 4.6 گرام ریشہ روزانہ کی ضرورت کا 17 فیصد وٹامن سی 24 فیصد وٹامینز وٹامن بی 1 ۔ 19 فیصد فولیٹ (وٹامن بی9) 11 فیصد میگنیشیئم اور 10 فیصد پوٹاشیئم پایا جاتا ہے۔
جو لوگ مکئی کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈ شوگر، انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول میں رہتی ہے۔ یہ اینٹی آکسیڈینٹ کا بہترین ذریعہ ہے اس میں فینولک ایسڈ نامی کمپاؤنڈ پایا جاتاہے جس کی وجہ سے جسم میں اینٹی آکسیڈنٹس کی تعداد بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں جسم سے مضرِ صحت مادوں کا صفایا ہوتا ہے۔
مکئی کے دانوں میں فائبر کی وافر مقدار سے نظامِ ہاضمہ بہتر رہتا ہے پاپ کارن کھانے سے قبض ٹوٹتی ہے اور پیٹ کے مسائل دور ہوتے ہیں۔
اس میں موجود وٹامن B کی ایک قسم فولیٹ پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے خون میں ایسی مضرِ صحت چیزیں پیدا نہیں ہوتی جس سے دل کی صحت کو خطرہ ہو، جن غذائی اجزاٰء میں فولیٹ پایا جاتا ہے وہ دل کی صحت کے لئے بےحد مفید ہوتی ہیں۔
آپ کے جسم سے فاضل مادوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خون کی صفائی کے علاوہ خون کی کمی کو بھی دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر وٹامنز کی کمی ہو تو اس کے لئے بھی مکئی کا استعمال بہترین ہے وٹامنز کی کمی کو مکئی کھا کر دور کیا جا سکتا ہے مکئی میں آئرن کی وافرمقدار پائی جاتی ہے جو کہ جسم میں کو مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے۔
مکئی کھانے میں جتنی ہلکی ہے اتنا ہی اس کا استعمال وزن میں کمی کا بھی باعث بنتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ وزن کنٹرول میں رہے تو چاول کھانے کی بجائے مکئی کو ترجیح دیں، اس سے ملنے والی پروٹین کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں آپ کا وزن کم ہونے لگے گا، اگر ایک پیالی بھی روزانہ پاپ کارن یا بھنی ہوٸی مکئی کھائیں تو اس سے وزن میں حیرت انگیز کمی ہوگی،
مکئی میں موجود Carotenoid اور وٹامن A بینائی تیز کرتا ہے حالیہ امریکی تحقیق کے مطابق پاپ کارن صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں جن کا استعمال پھل اور سبزیوں کی طرح ہی مفید ہوتا ہے، تحقیق کے مطابق پاپ کارن میں بھی پھلوں میں پائے جانے والی صحت مند غذائیت موجود ہوتی ہے وہ افراد جو پھل اور سبزیاں کھانا پسند نہیں کرتے وہ پاپ کارن کھاٸیں ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن کھاٸیں فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے بھوک محسوس نہیں ہوتی۔
اس میں موجود وٹامن B1 اور وٹامن B5 پٹھوں کے نۓ خلیات بناتے ہیں پٹھوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ تھکن اکتاہٹ پٹھوں کی کمزوری بھی ختم کرتے ہیں
جن افراد کو ذیابیطس یا بلڈ پریشر کامسئلہ ہو انہیں مکئی کا استعمال ضرور کرنا چاہیے، اس میں موجود فوٹوکیمیکلز کی وجہ سے خون میں اعتدال رہتا ہے اور اس میں کاربوہائیڈریٹس کی کم مقدار کی وجہ سے ذیابیطس کنٹرول میں رہتی ہے اور ساتھ ہی بلڈ پریشر بھی نہیں ہوتا
اس کے بھنے ہوۓ دانے چبا کر کھانے سے معدہ اور رگوں میں جمی چکناٸی ختم ہوتی ہے
ان گنت فاٸدوں کے ساتھ خالق کاٸنات اللہ نے اس میں بہت طاقت رکھی ہے اسے ضرور استعمال کریں اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاٶ گے۔(القرآن)

Address

Link Road Abbottabad
Abbottabad
22010

Telephone

+923129963969

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pak Virsa پاک ورثہ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pak Virsa پاک ورثہ:

Share



You may also like